40

غریبی خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے

پاکستانیوں کا شمار غالباً سب سے زیادہ خیرات کرنے والی قوموں میں ہوتا ہے اور اس حقیقت سےبھی انکار ممکن نہیں کہ ملک میں جب بھی کبھی قدرتی آفات آتی ہیں تو پاکستانی قوم متحد ہوکر اس سے نمٹنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے فلاحی اور خیراتی کاموں کی آگاہی اور لوگوں کو اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالنے کی دعوت بھی دی جاتی ہے اور کب یہ جذبہ، پاک مقصد سے ریاکاری میں تبدیل ہوجاتا ہے اسکا پتہ بھی نہیں جلتا۔ اس تحریر کا مقصدکسی کی توہین یا تذلیل کرنا ہرگز نہیں ہے مگر امید ہے کہ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ہم اپنا جائزہ ضرور لیں گے ۔آج ہمیں سوشل میڈیا پر خیرات کےمقصد سے زیادہ خیرات کرنے والوں کی اپنی تشہیر زیادہ دکھائی دیتی ہے کہ فلاں شخص اتنا عظیم کام کر رہا ہے ۔ آج کل چیریٹی ڈنر کا فیشن عروج پر ہے ، اس طرح کی محفلوں میں کچھ لوگ اپنی واہ واہی کے لئے وقتی طور پر رقم کا اعلان بھی کردیتے ہیں اور جب پیسے دینے کی بات ہوتی ہے تو اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے۔ ایسی محافل میں مشہور و معروف شخصیات کو مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جاتا ہے تاکہ ان کی نام نہاد تنظیم اور بھی قدآور درخت لگنے لگے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے فنڈریزنگ ڈنر کی انٹری بھی رکھی جاتی ہے ۔
میرا مقصد اس طرح کے اقدام کی حوصلہ شکنی کرنا ہزگز نہیں بلکہ میرا اختلاف ان کے طریقہ کار سے ہے۔ اس کی مثال ایسے لے لیجئے کہ اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز کیلئے گاڑی میں اپنے گھر سے نکلتا ہے اور نماز قضاء ہونے کے ڈر سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا پڑا جاتا ہے تو صرف اس لئے کہ وہ اللہ کی عبادت یعنی نیک کام کے لئے جارہا تھا معاف نہیں کیا جاسکتا ۔
صدقہ، خیرات اور فلاحی کاموں کیلئے چندہ اکھٹا کرنے کیلئے عوامی سطح پر تقریبات کا انعقاد ضرور کریں مگر جس ملک میں آپ رہتے ہیں اس کے قوانین و ضوابط کے مطابق کیجئے۔ اگر ایسی تقریبات کا مقصد خالصتا خدمتِ خلق ہے تو لوگوں میں اس تنظیم کا تعارف کرائیں اور اپنے ذاتی اکاونٹ میں رقم جمع کروانے کے بجائے تنظیم کے اکاونٹ نمبر تقسیم کردیں ۔ آج کل تقریبا ہر تنظیم کے پاس آن لائن عطیات کی ادائیگی کی سہولت موجود ہے۔ سویڈن میں SWISH کا استعمال بہت عام ہے جس کے ذریعے رقم منٹوں میں منتقل کی جاسکتی ہے ۔ Swish کی اپنی ویب سائٹ پر فنڈریزنگ کرنے والی تنظیوں کی فہرست موجود ہے جو بذریعہ سوئش رقم وصول کر سکتی ہیں۔ہر وہ تنظیم جس کے پاس 90-KONTO ہے صرف وہ ہی تنظیمیں سوئش کے ذریعے چندہ اکھٹا کر سکتیں ہیں۔
اکثر اس طرح کے پروگرام منعقد کرنے والی نام نہاد تنظیمیں آپ کے عطیات کا زیادہ حصہ اپنے اخراجات اور اپنی تشہیر پر خرچ کرتی ہیں۔اس لئے جب بھی عطیات جمع کرائیں تو اس بات کا خیال رکھیں کے اس تنظیم کا 90-Konto موجو ہے یا نہیں کیونکہ سویڈن میں ہر فلاحی تنظیم کو 90-Konto جاری کیا جاتا ہے۔ اس اکاوئنٹ میں عطیات جمع کرانے سے اس بات کا اطمینان کیا جا سکتا ہے کہ آپ کی رقم صحیح ہاتھوں میں ہے اور اسکا صحیح استعمال ہوگا۔ کیونکہ اس اکاونٹ میں جمع ہونے والی رقم کا پورا حساب انساملنگ کنڑول نامی ادارہ کرتا ہے ۔
پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن اور شوکت خانم میموریل ٹرسٹ جیسی فلاحی تنظیمیں موجود ہیں ، ترقیاتی تنظیموں میں اخوت کا نام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے جو ہنر سکھانے اور چھوٹے قرضے فراہم کرنے کا کام کر رہی ہے۔ناروے کی سکون تنظیم بھی پاکستان کے معذور اور ضرورت مند عوام کی خدمت میں مصروف ہے اور ان سمیت تمام تنظیموں کے اکاونٹس اور آن لائن عطیات کی ادائیگی کی سہولت ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے تو ان تنظیموں کے نام پر چندہ اکھٹا کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ہم ان تنظیوں کا پیغام تو لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں لیکن ان کے نام سے اپنے کھاتے بھرنے کا حق ہمارے پاس نہیں۔
اپنی تحریر کا اختتام عہد حاضر کے ایک عظیم دانشور اور مدبر سیاستدان جناب نیلسن منڈیلا کی اس بات سے کروں گا”غریبی خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے” اور میں سمجھتا ہوں انصاف احتساب کے بغیر ممکن نہیں۔ آئیں اپنا احتساب خود کریں، اس سے قبل کے اللہ ہمارا احتساب کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں