67

عمران خان کی جان خطرے میں ہے؟؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین، عمران خان، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ٢٢ ویں وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ قوم سے اپنے خطاب کے دوران انہوں نے پاکستان کی ترقّی کی راہ میں حائل اہم ترین رکاوٹوں کا ذکر کیا جو دنیا میں پاکستان کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہیں مثلاً کرپشن، ٹیکس چوری اور پولیس کا نظام وغیرہ۔
اس خطاب کے دوران ایسا معلوم ہوا کہ جیسے ایک سیاستدان نہیں بلکہ غریب اور نچلے طبقے کا درد رکھنے والا کوئی عام انسان گفتگو کررہا ہو۔ ویسے تو اس خطاب میں بہت سے اندرونی اور بیرونی خطرات ور ملک کو درپیش مشکلات ( چیلنجز) کو بیان کیا گیا مگر ان میں سب سے اہم حصّہ ملک پر موجود بے تحاشہ قرضوں کا بارے میں ہے جو پاکستانی کرنسی کو عالمی مارکیٹ میں مسلسل گرا رہے ہیں۔ 1947 سے 2008 تک یعنیٰ ساٹھ سال کے دوران پاکستان پر 6 ہزار ارب روپے کا قرضہ تھا، 2008 سے 2013 تک، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہ قرضہ 15 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا۔ اس کے بعد میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں یہ قرضہ، آج 28 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، یعنیٰ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچّہ تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا مقروض ہے۔ صرف 95 ارب روپے کے بیرونی قرضے پاکستان کے ذمّے واجب الادا ہیں جو آپ اور میں ٹیکس کی صورت میں ادا کریں گے، پھر چاہے وہ سیلز ٹیکس ہو یا انکم ٹیکس یا پٹرول اور بجلی پر ٹیکس۔
گزشتہ حکومت پانچ سال تک قوم یہ سبز باغ دکھاتی رہی کہ چین کی 50 ارب روپے کی چائنہ پاک اکنومک کوریڈور کی سرمایہ کاری کے بعد پاکستان کی تقدیر بدل جائےگی جبکہ پاکستان کی مشہور مالیاتی فرم ‘دی ٹاپ لائنرز ‘کے مطابق پاکستان کو چین کی اس 50 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے عیوض تیس سال کے دوران 90 ارب روپے ادا کرنے ہونگے۔ پاکستان کو اپنے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے ہر سال اسٹیٹ بینک کے علاوہ بیرونی قرضے بھی لینے پڑتے ہیں جو’آئی ایم ایف’ (انٹرنیشنل مونٹری فنڈز )سے لیے جاتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ بینکنگ سسٹم یہودی لابی کا تیار کردہ باقاعدہ ایک سسٹم ہے جسے بارٹر سسٹم کو ختم کر کے دنیا بھر کی دولت کو چند لوگوں تک محدود رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس سسٹم کا فائدہ اٹھا کر نوٹ چھاپ چھاپ کر یہ مٹھی بھر یہودی لوگ آج دنیا کے امیر ترین افراد بن چکے ہیں جو اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ الیومناتی اور فری میسن جیسی خفیہ تنظیموں کے ذریعے دنیا بھر میں ایک عالمی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ پوری دنیا پر صرف ایک شیطانی مذہب کو نافذ کیا جاسکے۔
آج کے جدید ترقّی یافتہ دور میں جنگ صرف میدانوں میں نہیں بلکہ معیشت کے ذریعے بھی کی جاتی ہے۔دنیا میں ایسے ممالک بھی موجود ہیں جو بےشک اپنے دفاع پر اتنا پیسہ خرچ نہ کرتے ہوں مگر پھر بھی دنیا کے ترقّی یافتہ ممالک میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ یہودی فری میسن پورے امریکہ، اسرائيل اور برطانیہ کے ممالک میں ہیں اور اس پر مکمل قبضہ اور کنٹرول رکھتے ہیں۔ یہی لوگ امریکہ کے فاؤنڈنگ فادر ہیں اور اس کے سیاق و سباق کے مالک بھی ہیں۔ بینکوں کے نظام کے بعد دنیا پر اپنی معاشی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے ان لوگوں نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے متعارف کرائے۔ جن کا مقصد ایک طرف امریکی کرنسی کو دنیا کی طاقتور ترین کرنسی بنانا تھا اور دوسرا مقصد قرضہ دیکر دنیا کے پسماندہ ممالک پر قبضہ کر کے ان کی معیشت پر اپنا اثر جمائے رکھنا تھا۔
سود کو اسلام میں لعنت کہا گیا ہے اور اس کی سخت مذمّت کی گئی ہے۔ سود کی لعنت کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں پر صرف سود کو اتارنے کے لیے مزید قرضے لے رہا ہے اور یوں الیومیناتی اور فری میسن جیسی تنظیمیں ان قرضوں کی واپسی کے لیے اپنی من چاہی شرائط عائد کرتی ہیں جسے پاکستان کی حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی ماننا پڑتا ہے۔ مثلاً بجلی پر مذید ٹیکس، پٹرول پر ٹیکس، قومی اداروں کی فروخت اور سب سے آخر میں ان کو پاکستان کو اس جگہ پہنچا دینا ہے جہاں اس کی معیشت بالکل ڈھے جائے اور تب اس کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا جائے۔ اس کے بعد اسے تباہ کرنے کے لیے اس کے دشمن ممالک خاص طور پر بھارت گھات لگائے بیٹھا ہوگا۔
عمران خان نے بطور وزیراعظم امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ اعلان کیا کہ ہم ایک غیرت مند قوم ہونے کاثبوت دینگے اور کسی کے بھی آگے قرضوں کے لیے ہاتھ نہیں پھیلائیں گےجیسا کہ گزشتہ حکومتیں کرتی آئیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ
“میں ملک اور قوم کے ٹیکس کا پیسہ بچاؤں گا، اداروں کو ٹھیک کروں گا، کرپشن کا خاتمہ کروں گا تاکہ پاکستان ایک بار پھر معاشی طور پر مضبوط ہوکر دنیا کے سامنے آسکے اور برابری کی سطح پر بات کرسکے۔”
اس طرح پاکستان میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا جس سے عالمی مارکیٹ میں روپے کی قیمت بڑھے گی۔ اگر ایسا ہوگیا تو معاشی طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے فری میشنری اداروں کا کنٹرول پاکستان کی معیشت سے ختم ہوجائےگا۔جس مقصد اور ایجنڈے کے لیے وہ صدیوں سے کام کررہے ہیں ناکام ہوجائیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ بات ان کے لیے ناقابل برداشت ہے کہ عمران خان ان کے مقصد کے درمیان بہت بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آجائیں کیونکہ عمران خان وہ کام کرنے جارہے ہیں جو پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کبھی نہیں کیا گیا لہذا ان کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
پاکستان کی ایجنسیاں عمران خان کو بارہا آگاہ کرچکی ہیں کہ وہ افغان دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں جسے امریکہ انڈین ایجنٹوں کے ذریعے افغانستان سے ممکن بنانے پر تلا ہوا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کسی وزیراعظم کو اس وقت اتنا خطرہ ہوجتنا عمران خان کو ہے جبکہ دوسری طرف عمران خان نے سکیوریٹی لینے سے انکار کردیا ہے۔ قوم انہیں سوشل میڈیا پر اللہ کا واسطہ دیکر کہہ رہی ہے کہ ہمیں آپ کی جان بہت پیاری ہے لہذا سکیوریٹی کا اہتمام لازمی کریں۔ آئی ایس آئی نے دعوٰی کیا ہے کہ اس نے عمران خان پر حملہ کی منصوبہ بندی کرنے والے دس دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے اور یقیناً آئندہ بھی ایسے منصوبے بنتے رہیں گے اور عمران خان کو سازشوں کے ذریعے کسی بھی طرح قتل کرکے راستے سے ہٹانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ ان پکڑے جانے والے دس دہشت گردوں کا تعلق اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد اور بھارت کی خفیہ ایجنسی را سے ہے۔ ممکنہ طور پر اس بات کا اندیشہ ہے کہ خود عمران خان کی پارٹی میں کچھ ایسے آستین کے سانپ موجود ہیں جو ان کی نقل و حرکت کی تمام خفیہ معلومات ان ممالک کی دشمن ایجنسیوں کو دے رہے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ رب الکریم کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا۔ اگر اللہ پاک نے عمران خان کے نصیب میں ملک کی تقدیر کو بدلنا لکھا ہے تو دنیا بھر کی حکومتیں چاہے جتنا بھی زور لگا لیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں لہذا ہمیں ان شیطانی طاقتوں سے زیادہ اس رب الکریم کی ذات پر توکّل اور بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔
عمران خان نے اپنے خطاب کے دوران جو دوسرا اہم نکتہ بیان کیا وہ ماحولیاتی آلودگی اور شجرکاری سے متعلق تھا جس پر اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا۔ عمران خان نے اس کام کے لیے باقاعدہ ایک وزیر کو تعینات کیا ہے۔
پاکستان کا شمار ماحولياتی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثرہ دنیا کے چند ممالک میں ہوتا ہے۔ماحولياتی آلودگی کی بدولت ہر سال لاکھوں لوگ مختلف بیماریوں مثلاً الرجی، جلد کے انفکشن، ٹی۔ بی، ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسی جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
اگر عمران خان کے وژن کے مطابق ملک بھر میں اربوں نئے درخت لگا دیے گئے تو نہ صرف ماحولياتی آلودگی بہت حد تک کم ہو جائے گی بلکہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت بھی کم ہوسکے گا۔جس کے نتیجے میں لوگ کم بیمار ہونگے اور ماحولياتی آلودگی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریاں بھی کم ہونگی اور یوں اربوں روپوں کی وہ ادویات جو یہودی لیبارٹریوں سے پاکستان درآمد (امپورٹ) کی جاتی ہے وہ بند ہو جائیں گی جو کہ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اسرائیلی معیشت کے لیے کس قدر بڑا دھچکہ ہو گا جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ کینسر جیسی جان لیوا بیماری کی ادویات برآمد (ایکسپورٹ) کرتی ہے اور اربوں ڈالر کا منافع کماتی ہے۔ یہی منافع شام کے معصوم بچوں پر بمباری کے لیے کیمیائی ہتھیار خریدنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ عمران خان نے پانی کی صفائی کےلیےاہم اقدامات کرنے پر بھی زور دیا جس سے منرل واٹر بنانے والی یہودی کمپنی کامنافع بخش کاروبار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
کُل ملا کر عمران خان فری میسن اور الیومیناتی کے لیے معاشی طور پر ایک بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں جسے وہ کوئی سازش کرکے ، فرقہ واریت، قوم پرستی کے ذریعے یا ملک کو افراتفری کا شکار کر کے راستے سے ہٹانے کی ہر ممکنہ کوشش کرینگے۔ مگر ہمیں باحیثیت ایک قوم ہر صورت متحّد رہنا ہے اور ان خطرات اور سازشوں کا سامنا کرنا ہے۔ اگر آج ہم ان شیطانی طاقتوں کے سب سے بڑے ہتھیار یعنٰی یہودی معاشی نظام کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے تو ہی ان سے آنکھیں ملا کر برابری کی سطح پر مقابلہ کر پائیں گے اور پھر وہ وقت بھی آئے گا جب امت مسلمہ اپنے ایک عظیم سپاہ سالار کی قیادت میں متّحد ہوگی اور حق و باطل کا آخری معرکہ ہوگا۔
اللہ تعالٰی عمران خان اور ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں