رمضان المبارک کا مہینہ ہے، برکات کا نزول ہے، رحمت برس رہی ہے، کرم عام ہے، ہر طرف نیکیاں ہی نیکیاں ہو رہی ہیں ،عبادات کی جا رہی ہیں، رب کا خاص احسان ہے ہم پر. ایسے میں جب شیطان بھی قید ہے تو معاملہ اور اچھا ہو جاتا ہے مگر ہم تو ہم ہیں اور ہمیں جہاں موقع ملتا ہے ہم اپنا حصہ ڈالنے سے باز نہیں آتے ہیں پھر چاہے کسی کی تذلیل ہو، غیبت ہو، کسی کی حق تلفی ہو یا دوسروں کے کردار کو جانچنا ہو، ہم سے رہا نہیں جاتا ہے۔
رات کو اچانک ٹی وی لگایا تو ایک صاحب بتا رہے تھے کہ ان کے بھائی جو امریکہ میں رہتے ہیں، وہ اپنے امریکی ساتھیوں کے ساتھ دن کو دفتر میں لنچ کرتے تھے. رمضان کے مہینے میں چونکہ روزے رکھتے تھے اس لیے جب وہ کئی دنوں سے لنچ کےلیے نہیں گئے تو ان کا ایک ساتھی ان کے پاس آیا اور لنچ نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو بھائی نے اسے بتایا کہ ہمارے مذہب میں ایک مہینہ رمضان کا ہوتا ہے جس میں ہم روزے رکھتے ہیں اور سارا دن کچھ کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ اس امریکی ساتھی کا تجسس بڑھا تو اس نے مزید پوچھا! روزے کے دوران آپ لوگ اور کیا کیا کرتے ہیں؟ بھائی نے بتایا کہ ہم اچھے کام کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، غیبت نہیں کرتے، دوسروں کا خیال رکھتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔
وہ امریکی ساتھی یہ سن کر کہنے لگا! واہ دوست آپ لوگوں کے تو مزے ہیں کہ آپ کو صرف ایک مہینہ یہ کام کرنے ہوتے ہیں مگر ہمیں سال کے بارہ مہینے یہ سب کرنا پڑتا ہے، بس ہم بھوکے نہیں رہتے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس نے کتنے آرام سے کتنی بڑی بات کہہ دی اور ہمارے لیے سوچنے کو کتنا کچھ چھوڑ دیا. اگر ہم اس بات کو سنجیدگی سے لیں تو ہماری ایک مہینے کے علاوہ دیگر گیارہ مہینوں کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے. خدا ہمیں اچھے عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ایک طرف تو ساری دنیا میں حتٰی کہ پاکستان میں بھی کئی جگہوں پررمضان کےلیے اشیاء کی قیمتوں میں کمی کر دی گئی ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کا ہجوم ہے جنہوں نے ہر چیز کی قیمت دوگنی کر دی ہے. سستے بازار کم ہیں اور مہنگے بازار تک کئی لوگوں کی رسائی نہیں ایسے میں عوام کیا کرے؟ کیا کھائے اور کیا پیے؟ کچھ مہنگائی حکومت کی طرف سے ہے اور جو کسر رہ جاتی ہے وہ ساہوکار پوری کر دیتے ہیں. ان کی ذخیرہ اندوزی انہی دنوں تو کام آتی ہے جب ہر طرف بھوک ہو. انہیں تو صرف اپنے منافع سے مطلب ہے چاہے عوام کا جینا دوبھر ہو جائے اور لوگ بھوک سے مر ہی کیوں نہ جائیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے چھوٹی بہن اپنا قرآن کا سبق پڑھ رہی تھی اور تعوذ پڑھے بغیر آگے بڑھ گئی. ماما نے پوچھا تو کہنے لگی! ماما شیطان تو قید ہے اور پھر پوچھتی ہے! پر ماما یہ جو ساری بری چیزیں ہورہی ہیں یہ کیوں ہو رہی ہیں جبکہ شیطان تو اللہ تعالیٰ کی قید میں ہے؟
اور میں سوچتی رہ گئی کہ اس نے اتنی معمولی بات ایسے ہی کیسے کہہ دی. بات تو سولہ آنے صحیح ہے کہ شیطان تو قید میں ہے پھر یہ سب کون کر رہا ہے؟ اخباروں کو چین کیوں نہیں؟ روز نت نئی دل دہلا دینے والی خبروں سے صفحات کالے کر دیتے ہیں، لوگوں کو چین کیوں نہیں؟ اب انہیں کس بات کی پریشانی ہے؟
شیطان چاہے کتنا ہی قید ہو جائے، ہم انسان تو کھلے ہوئے ہیں نا، ہمارا نفس تو آزاد ہے نا، اسے تو قید نہیں ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شیطان کے قید ہونے کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑتا. وہی چالبازی ہے، وہی دھوکہ دہی ہے، وہی رونے دھونے ہیں، وہی لوٹ مار ہے، وہی حق تلفی ہے، وہی گالم گلوچ اور بدتہذیبی ہے، جو پہلے تھی۔ یہاں باہر کے شیطان سے زیادہ اندر کے شیطان کو قید کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے اندر چھپا بیٹھا ہے اور ہم سے یہ سب کرواتا ہے. ہم باہر کے شیطان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں، اسے کوستے رہتے ہیں اور اندر کے شیطان کی طرف ہماری نظر ہی نہیں جاتی ہے جبکہ رمضان کا اصل مقصد ہی اس اندر کے شیطان سے لڑنا ہے اسے قید کرنا ہے. اصل مقابلہ اندر والے شیطان کے ساتھ ہے. باہر والا تو پہلے ہی قید ہے. جب اندر والا قید ہو جائے گا تو باہر والے کی جرآت ہی نہیں کہ وہ اپنا آپ دکھا سکے۔ کیا خوب فرمایا ہے بلھے شاہ نے!
لڑ لڑ لڑنا اے شیطان دے نال بندیا
کدی اپنے آپ نال لڑیا ای نہیں.
اصل جنگ ہی ہماری ہمارے اپنے ساتھ ہے. جس دن ہم نے یہ جنگ لڑنا شروع کردی، برائیاں خودبخود ختم ہو جائیں گی. لوٹ مار، دھوکہ دہی، بد تہزیبی سب ختم ہو جائے گا. اب ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہمیں اپنے لیے کیسا ماحول چاہیئے؟ ایسا کہ پھر کسی استاد کو حالات سے لڑتے لڑتے ہمارے رویوں کی وجہ سے مرنا نہ پڑے، پھر کسی ماں کو ہماری ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے اپنے بچے بھوکے سلانے نہ پڑیں، پھر کسی سفید پوش کو چند پیسوں کی مدد کے عوض اپنی عزت کا مذاق نہ بنانا پڑے یا پھر کسی باپ کو ہماری بےحسی کی وجہ سے گھر خالی ہاتھ نہ جانا پڑے۔ ہمیں سوچنا ہو گا! حکومتیں چاہے جتنا مرضی احتساب کر لیں جب تک ہم اپنا احتساب خود نہیں کریں گے تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ حکومت کی نااہلیوں پر سب مل کر روئیں گے مگر اپنی نااہلیوں کو ہمیں خود ہی دیکھنا ہوگا اور اسے دور کرنا ہو گا. اللہ تعالیٰ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے.
39