37

سچ کی تلاش

اپنے خالق کی تلاش میں میں انسان روز اول سے ہی سرگرداں ہے ۔ وہ اس کھوج میں رہا ہے کہ کون سا ایسا مذہب ہے جو اس کے رب تک پہنچنے کا درست ذریعہ ہے۔ انسان کی یہ تلاش ہمیشہ سے رہی ہے اور یہ کبھی ختم نہ ہوگی۔ ہر مذہب کا دعویٰ ہے کہ وہ سچائی پر مبنی ہے اور انسان کو اس کے خالق کا درست تصور عطا کرتا ہے۔ جن بھی ممالک میں کسی ایک مذہب کے ماننے والے اکثریت میں ہیں وہاں شائد زیادہ سوالات جنم نہیں لیتے لیکن مخلوط معاشروں میں ایسے سوالات کا اٹھنا ایک فطرتی عمل ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ پاکستان سے برطانیہ آکر جناب افضل چوہدری کی جستجو نے انہیں سچ کی تلاش کا راستہ دیکھایا۔ ایک صحافی، کالم نگار، ٹی وی اینکر اور سیاستدان ہونے کے ساتھ مذہب کے ساتھ افضل چوہدری کی گہری دلچسپی ہے۔ انہوں نے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجودکہ اس پر بھی غوروفکر کیا ہے۔ قرآن حکیم کا بھی یہ مطالبہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لانے کے دعویٰ دار ہو ایمان لاؤ(نساء 36) یعنی پیدائش کے اعتبار سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا۔ مزید براں مومنین کی یہ خوبی بھی بتائی کہ وہ قرآنی احکامات پر بھی غوروفکر کرتے ہیں اور اندھی تقلید نہیں کرتے (فرقان73)۔ افضل چوہدری کی نو سال کی تحقیق و جستجو اب قارئین کے لئے ایک کتاب کی صورت میں منظر عام پر آگئی ہے جس کانام انہوں نے تلاش رکھا ہے۔ سرعام سچ کی تلاش جس کا بنیادی سوال ہے کہ مذاہب عالم کا فلسفہ اور کیا مذہب کو ماننا چاہیے یا پھر نہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے دنیا کے تمام بڑے الہامی اور غیر الہامی مذاہب کا تعارف، بنیادی اعتقادات، مروجہ عبادات ، موجودہ دور میں صورت حال اور دوسرے اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ کتاب کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ فاضل مصنف نے بہت محنت اور عرق ریزی سے کام کرکے اہم معلومات اور حقائق قارئین کے سامنے رکھے ہیں۔ کتاب کی ضخامت نہایت مناسب ہے جو کہ دو سو صفحات سے کچھ کم ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں جن مذاہب کا تقابلی جائیزہ لیا ہے ان میں دنیا کے قدیم ترین مذاہب، افریقی مذاہب، ہندو مت، جین مت، بدھ مت، سکھ مت، چینی تاؤ مت، کنفیوشس مت، سنومت، پارسی، زرشت، یہودیت، عیسائیت، اور اسلام شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی تلاش صرف مذاہب تک جاری نہیں رکھی بلکہ انہوں لادینیت کو زیر بحث لا کر اہم دلائل دیئے ہیں اور اس سوال کا جواب بھی دیا ہے کہ مذہب کو ماننا چاہیے۔یاد رہے کہ علامہ اقبال نے اپنے خطابات کے آخری خطبہ کیا مذہب ممکن ہے کے عنوان سے دیا تھا۔ افضل چوہدری نے سائنس اور مذہب کا مکالمہ کرتے ہوئے مذہب کا سائنس کو چیلنج دیا ہے اور تیرہ اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے تمام حقائق سے یہ ثابت کیا ہے کہ مذہب کوماننا ہی پڑے گا۔ مذاہب عالم پربلاشبہ اردومیں یہ واحد کتاب ہوگی جس میں تمام اہم مذاہب کابہت حقیقت پسندانہ انداز میں تجزیہ کیا ہے اور کسی قسم کا تعصب روا نہیں رکھا گیا۔
فاضل مصنف نے مروجہ روایت کے تحت اسلام کو ایک مذہب اور پیغمبر اسلام کو اس کا بانی قرار دیا ہے حالانکہ پورے قرآن میں کہیں بھی اسلام کے لئے مذہب کا لفظ نہیں آیا بلکہ سے ایک دین یعنی زندگی گذارنے کا ایک نظام کہا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے اسلام ایک مذہب نہیں بلکہ ایک دین ہے۔ جہاں انہوں نے دیگر مذاہب پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے اور اہم سوالات بھی اٹھائے وہیں انہوں نے دور جدید میں مسلمانوں کے مسائل، فرقہ پرستی، اسلامی اقدار سے دوری اور قرآن کی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے کے عوامل کا بھی ذکر کیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں پر بحث کرتے ہوئے وہ اپنی کتاب تلاش کے صفحہ 176پر لکھتے ہیں کہ قرآن پاک اعمال کی کتاب تھی مگر مسلمانوں نے اسے صرف دعا کی کتاب بنا دیا۔ قرآن پاک زندگی کا منشور ہے مگر مسلمانوں نے موت کا قانون بنا دیا۔ یہ کتاب تسخیر کائنات کا درس دینے آئی تھی مگر مسلمانوں نے مدرسوں تک محدود کردیا، اس کتاب نے مردہ اور جاہل انسانیت کو زندہ کیا تھا مگراب اس کتاب کو پکڑ کر اس سے مردے بخشوائے جاتے ہیں۔ اسلام کے ماننے والے یا تو ماضی پر فخر کرتے ہیں یا حیات بعد الموت کو زیر بحث لاتے ہیں۔ زندگی یادنیاوی خوشی سے بے خبر یہ لوگ دنیاوی جدتوں اور ٹیکنالوجی میں پیچھے وہ جانے کی وجہ سے بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور دوسری طرف دین نام نہاد مولویوں کے نرغے میں ہے۔ مسلمان قرآن پاک کو عربی میں تو پڑھتے ہیں مگر اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ بہت کم پڑھتے ہیں۔ ترجمہ نہ پڑھنے کی وجہ سے مولویوں کی سنی سنائی باتوں پر تقین کرتے ہیں۔حالانکہ قرآن کا کا ترجمہ پڑھنے سے مسلمان اصلی دین کی سمجھ بوجھ سے سرخرو ہوسکتے ہیں۔ اس سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں