کہا جاتا ہے کہ اسلامی تصوف کا ظہور دوسری صدی ہجری میں ہوا اور سب سے پہلے ابو ہاشم کوفی نامی شخص کو باضابطہ صوفی کہہ کر پکارا گیا. جنھوں نے رملہ (فلسطین) میں ایک خانقاہ قائم کی تھی جہاں عابد و زاہد مسلمانوں کی ایک جماعت خود کو نعمات دنیا سے دور کرکے فقط عبادت میں مصروف رہا کرتی تھی.
بعض علماء تصوف کی نسبت دور نبوی (ص) کے ایک گروہ اصحاب صفہ سے جوڑتے ہیں جو ابتدائے اسلام میں دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدینے آئے تھے اور مسجد نبوی کے احاطے میں بنے ایک چبوترے میں رہتے تھے. یہ لوگ صوف یعنیٰ اون کا بنا موٹا لباس پہنتے تھےاور مسلمانوں کی جانب سے دی جانے والی زکواۃ و خیرات پر گزر بسر کرتے تھے. ان کے لباس کی مناسبت سے ہی انہیں صوفی کہا جانے لگا.
صوفیاء کرام خدا سے محبت اور اس کی قربت کی آرزو کو تصوف کا نام دیتے ہے. ان کے نزدیک تصوف کا محور اپنے معبود سے عشق ہے جو عبد کے دل کو ہر طرح کے خیالات رذیلہ سے پاک کرکے عبدیت کی اعلیٰ مسند پر بٹھا دیتا ہے. وہ اس علم کا منبع پیغمبر خدا حضرت محمّد مصطفےٰ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کو قرار دیتے ہیں جو تمام انبیاء و مرسلین اور اولیاؤں کے سردار ہیں. ان کے بعد یہ علم صحابہ کرام رضی اللہ تک پہنچا اور پھر ان سے شیخین و مرشدوں نے حاصل کیا.
صوفیوں کے ستّر سے زائد سلسلے بتائے جاتے ہیں. جن میں خاص یہ ہیں احمدیہ، جزولیہ، جنیدیہ، چشتیہ، رفاعیہ، سہروردیہ، شطاریہ، شاذلیہ، قلندریہ، قادریہ، مولویہ، ملامتیہ اور نقشبندیہ. ان سلسلوں کے پیروکار ایشیا، افریقہ، امریکہ اور یورپ، دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں. شمالی یورپ خاص طور پر اسکینڈی نیویائی ممالک کے بارے میں عام طور پر یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ اسلامی تصوف اپنا ٹھکانا یہاں بھی بناسکتی ہے. اسی سلسلے میں آج ہم ذکر کریں گے سویڈن کے صوفی شیخ عبدالھادی عقیلی المعروف جان گستاف ایوان اگیلی کا. جنھوں نے اسلامی دنیا کے بزرگ صوفی محی الدین ابن العربی (1076- 1148ء) سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا.
شیخ عبدالھادی المعروف ایوان اگیلی 24 مئی 1869ء میں سویڈن کے شہر سالا میں پیدا ہوئے. وہ صوفی اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ مصور اور مصنف کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں. انہوں نے ابتدائی تعلیم سویڈن (اسٹاک ہوم، فالون، سالا اور ویستروس) میں حاصل کی اور پھر 1889 میں مصوری کی تعلیم کے لئے فرانس (پیرس) چلے گئے اور فرانسیسی مصور ایملی برنارڈ (1868- 1941) کی شاگردی اختیار کی. سال بھر کے عرصے کے بعد واپس اسٹاک ہوم آئے اور معروف مقامی مصوروں آندرش زورن (1860- 1920) اور سوین ریکارڈ برگ (1858- 1919) سے استفادہ حاصل کیا. 1892 میں دوبارہ پیرس کا رخ کیا. فرانس میں ہی ایوان اگیلی نے ابن العربی کی شخصیت اور تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا اور اپنا نام ایوان اگیلی سے تبدیل کر کے عبدالھادی عقیلی رکھ لیا.
1902 میں ایوان اگیلی نے مصر کا رخ کیا اور مسلمانوں کی مشہور درسگاہ جامع الازھر میں عربی اور اسلامی فلسفے کی تعلیم حاصل کی. یہاں تذکرۃً یہ بھی بتاتی چلوں کہ ایوان اگیلی کو جامع الازھر میں پہلے مغربی یورپی طالبعلم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے.
تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1911 میں ایوان اگیلی نے فرانس کے شہر پیرس میں ال کبریا کے نام سے خفیہ صوفی سوسائٹی قائم کی جس کا مقصد ملامتیہ سلسلے کے تحت ابن العربی کی صوفیانہ تعلیمات کو عام کرنا تھا. دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سوسائٹی کا پہلا رکن فرانس کا مشہور و معروف مصنف اور دانشور رینی گیونن المعروف شیخ عبدالواحد یحیٰ ( 1886- 1951) تھا. جس کی فرانسیسی زبان میں کی گئی تصانیف کا اب تک بیس مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے.
شیخ عبدالھادی عقیلی المعروف ایوان اگیلی صوفیوں کے ملامتی سلسلے سے تعلق رکھتے تھےجو اپنے اعمال کو لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور عبادت کے لئے خانقاہوں پر انحصار نہیں کرتے. علماء تصوف کے نزدیک ملامتی وہ ہوتے ہیں جن کے دل میں کوئی برائی نہیں ہوتی مگر وہ اپنی نیکیاں کھلے عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے.
پہلی اکتوبر 1917ء میں ایوان اگیلی اسپین (بارسلونا) کے ایک گاؤں میں ریل کی پٹری پار کرتے ہوئے ریل حادثے کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے. ان کی موت کے بعد مصوروں کے سرپرست سمجھے جانے والے سویڈن کے شہزادے یوجین برناڈوٹ (1865- 1947) ان کی بنائی ہوئی تصاویریں سویڈن لے آئے. جہاں انہیں معاصر مصور کے طور پر خوب سراہا گیا اور ان کی تصاویروں کو نیشنل میوزیم آف فائن آرٹس اور نیشنل میوزیم آف ماڈرن آرٹس اور ان کے آبائی شہر سالا کے اگیلی میوزیم کی زینت بنایا گیا.
سویڈن میں ایوان اگیلی کی شہرت اس وقت سامنے آئی جب 1969ء میں ان کی سو سالہ سالگرہ کے موقع پر سویڈن کے محکمہ ڈاک نے ان کے ٹکٹ جاری کیے. اس اہمیت کے پیش نظر ہی 1981ء میں ایوان اگیلی کی باقیات اسپین سے سویڈن لائی گئیں اور ان کے آبائی شہر سالا میں اسلامی طریقے سے دفنائی گئیں.
شیخ عبدالھادی عقیلی المعروف ایوان اگیلی کے بارے میں بہت زیادہ نہیں لکھا گیا مگر ان سے واقفیت کا بہترین ذریعہ موجودہ دور کے معروف مصنف اور مقرّر لارش تھوربیورن سیفے المعروف صوفی علی طوبیٰ (1941ء) کی تحریر کردہ کتاب (این رومان اوم فری ہیت) کو قرار دیا گیا ہے.
