آج جب چھوٹے بیٹے ملک ارمان امیر کو سومنگ سکھانے کے لیے سومنگ پول میں لے کر گیا اور اس کو پانی میں کودتا اور مچلتا دیکھا تو اپنا بچپن یاد آگیا – اپنے گاوں تھوہا بہادر کے تمام وہ تالاب یاد آگے جن میں اپنے والدیں سے چوری نہایا کرتے تھےدن کو نہا نہا کر آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں اور چوری پکڑی جاتی تھی- گاوں میں کئی تالاب تھے شاید اب بھی ہوں؟ کئ تالابوں کے نام ابھی تک یاد ہیں، ٹالیاں آلی بنھ، وڈا بنھ، وڈی بنھ، بلوچاں آلی بنھ،بنھوڑے آلی بنھ،موچیاں آلی کھوی، دھبیاں آلا کھوہ، وڈا چوآ ان کے علاوہ اوربھی تالاب ہیں جوکہ مجھے یاد تو ہیں مگر نام ذہن میں نہیں آرہا-اس کے علاوہ دن کو تالابوں سے گیلی مٹی لا کر بیل اور گھوڑے بنانا – راتوں کو چور سپاہی کھیلنا۔ کیا پیارا بچپن تھا-شام کو والی بال کھیلنا ، سورج غروب ہوتے ہی گھر کو دوڑنا کیونکہ ٹی وی پر کلیاں اور انکل سرگم دیکھنےہوتے تھے۔ کیا سماں تھا کہ ایک گھر میں سارا محلہ ٹی وی دیکھتا تھا اور جب بڑے ڈرامے دیکھنے کے بعد گپ شپ میں مصروف ہوجاتے تو ہم بچے لڑکیاں لڑکے چور سپاہی کھیلنا شروع ہوجاتے ۔ آزاد اور پاکیزہ زندگی تھی۔ ہم آزاد پنچھی تھے ۔ ہم سارے بچے پورے گاوں کے بچے ہوتے تھے ۔ اگرکوئ بچہ کوئ غلطی کرتا تو گاوں کا کوئ بھی بڑا ڈانٹ دیتا ۔ کیا مجال کہ کوئ بڑے کے سامنے زبان چلاتا۔
پھر ہم نے ترقی کرنی شروع کردی۔ ابو پاپا بن گئے اور امی مام بن گئیں۔ سرکاری سکول کے بجاے پرائیویٹ سکول میں جانا شروع کردیا، ۔ سکول کے بجاے ٹیوشن پڑھنا شروع کردیا۔۔ہماری ترقی کی رفتار بہت تیز ہوئ جب موبائل فون ، انٹرنیٹ آیا ۔ ہم۔ نے اجتماہی زندگی سے انفرادی زندگی میں آنا شروع کردیا۔ فیس بک اور دوسرا سوشلمیڈیا ہمارے ساتھی بن گئے مگر ہمارے بوڑھے والدین اکیلے ہوگئے۔
16