39

زینت بنتِ حوا کی سر عام لٹ رہی ہے

زینت بنتِ حوا کی سر عام لٹ رہی ہے،
شہر میں زیادتیوں کی آواز گھٹ رہی ہے،

کیا آئے گا کوئی مسیحا دلانے انصاف مجھے؟
مجھے پسرِ آدم کی ہوس جھپٹ رہی ہے،

کب تلک ہوگا گرم ظلم کا بیوپار یہاں؟
انصاف کے آسرے میں عمر کٹ رہی ہے،

وقت کے قاضی کا یہاں اعلان ہوا ہے،
نہ نکلنا گھر سے روشنی سمٹ رہی ہے،

شعور کا بگل بج چکا بنتِ حوا کے واسطے،
چار دیواری میں خوابوں کو گھسٹ رہی ہے،

بیٹوں کی تربیت بھی ہے کام والدین کا،
وہ ازل سے بگڑے شہزادوں سے نپٹ رہی ہے،

ہے کوئی عمر کی خاک یا محمد بن قاسم نعمان؟
لٹنے کے خوف سے پدر سے اپنے چمٹ رہی ہے-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں