بیرون ممالک ہجرت ایک عالمی مسئلہ ہے۔تلاش معاش اوربہترزندگی کی خواہش ہجرت کی بنیادی وجہ ہے۔عارف کسانہ نے اپنی تحریروں میں ان نظریات کی بھی عکاسی کی ہے جوہجرت اورمابعدہجرت وطن سے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں۔اس تعلق سے عارف کسانہ نے کچھ اس طرح خامہ فرسائی کی ہے:
”یہ حقیقت ہے کہ جو لوگ بیرون ممالک میں مقیم ہیں وہ حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہیں۔اورہرمعاملہ میں جس ملک کو وہ چھوڑکر آئے ہوتے ہیں ،اس کا وطن ثانی کے ساتھ موازانہ کرتے ہیں۔ہرایک کی خواہش ہوتی ہے کہ جس ملک سے ہجرت کی تھی وہ بھی خوشحالی ،امن اورترقی کی راہ پر گامزن ہو۔میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے اوراس کا عکس قارئین کومیری تحریروں میں واضح طورپر نظرآئے گا۔”(۵)
عام طورپر لوگ گھر کی سجاوٹ کے لیے پڑوسی اورقرب وجوارکے گھروں کی سجاوٹ کا معائنہ کرتے ہیں تاکہ اسی نہج پر اپنے گھر کی سجاوٹ کرسکے،ٹھیک اسی طرح عموما قرب وجوار کی اونچی عمارتوں پر بنے گلکاریوں میں دل چسپی نقالی کی ہوس کی طرف اشارہ ہوتے ہیں۔اس مثال سے ترقی یافتہ اورغیرترقی یافتہ ممالک مرادلے سکتے ہیں کیوں کہ غیرترقی یافتہ ممالک کے باشندے ہمیشہ ملکی بدحالی اورپس ماندگی کا ذکرتے ہوئے ،خوش حال اورترقی یافتہ ممالک کا نام لینے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،وہ اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ ان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ہماراملک بھی ترقی کے تمام منازل اسی طرح طے کرے جس طرح ترقی یافتہ ممالک ہیں۔مذکورہ اقتباس میں عارف کسانہ انہیں نظریات کو پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
افکارتازہ میں کل ۶۲ متعدد عناوین پر مشتمل کالمز ہیں۔تمام موضوعات مختلف النوع ہیں۔اس مختلف النوع مضامین میں عارف کسانہ کبھی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے فکر مند دکھائی دیتے ہیں کہ آخر انہیں انصاف کیسے حاصل ہو،حالاں کہ اسلامی نقطہ نظر سے اقلیتوں کا تحفظ دینی اوراخلاقی ذامہ داری ہے۔ عارف کسانہ کبھی عورتوں کے مسائل پر کھل کر عوامی سوچ وفکر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ساتھ زندگی بسرکرنے کا عہدلینے والے لوگ حاکم ومحکوم میں منقسم ہوجاتے ہیں۔عارف کسانہ عورتوں کے حقوق اورمساوات کے لیے بنیادی سوالات قائم کرتے ہیں اور ان بنیادی سوالات پر عقلی اورنقلی دلائل دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تمام بنی نوع انسان محترم اورقابل عزت ہیں۔ظاہر ہے بنی نوع انسان میں مرداورعورت سب شامل ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مردعورت کے لیے غلام اورمحکوم ہوئیں؟موصوف لکھتے ہیں:
“میاں بیوی کے حقوق وفرائض کی تعلیمات دیتے ہوئے قرآن حکیم نے اس رشتہ کو حاکم اورمحکوم کا رشتہ نہیں کہا بلکہ اسے سکون،رحمت اورمحبت کا تعلق قراردیا ہے(۳۰/۲۰)۔مردوں پر معاشی ذمہ داری ڈالتے ہوئے انہیں ذمہ داری سونپی ہے جس کا معانی حاکم نہیں ہے جسے بعض سورہ نساء کی آیت۳۴الرجال قوامون علی النساء سے مطلب اخذ کرتے ہیں۔اسی آیت میں قرآن حکیم اس حقیقت کا بھی اعلان کرتا ہے کہ کچھ خوبیاں مردوں میں ہیں تو کچھ عورتوں میں اورپھر عورتوں کومردوں کا ہمدوش قراردیتے ہوئے ان تمام صلاحیتوں کی تفصیل الگ الگ کرکے بیان کردیتا ہے کہ خوبیاں مردوں میں ہیں وہی عورتوں میں بھی موجودہیں”۔(۶)
زیربحث موضوع اس وجہ سے بھی بہت اہم ہے کہ اسلام نے حقیقی معنوں میں عورتوں کو وہ تمام حقوق عطا کیے ہیں جن کے لیے صدیوں صنف نازک نے انتظارکیا،کیوں کہ اسلام دین فطرت ہے۔آج مسلم سماج عورتوں کے بارے میں منفی نظریہ کوکیوں فروغ دے رہے ہیں۔عورت جس طرح ماں،بیٹی اوربہن کی شکل میں قابل عزت ہیں اسی طرح بیوی کی شکل میں بھی قابل عزت اورمحترم ہیں۔
عارف کسانہ کبھی عورت کی ناقدری پر سوسائٹی کے سامنے قرآن کریم کا واضح فرمان پیش کرتے ہوئے اسلامی نظریے کی وضاحت کرتے ہیں تو کبھی عورت کا مقام ومرتبہ خالق باری کی فرمودات کی روشنی میں واضح کرتے ہیں۔عارف کسانہ کبھی ہندوپاک کے تلخ رشتوں پر قلم اٹھاتے ہیں تو کبھی سوشل میڈیا کا سماجی دائرہ کار اور سوشل میڈیا کے منفی اورغلط معلومات سے قوم وملت کو آگاہ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ہر شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ اکیسویں صدی میں سوشل میڈیاسے راہ فراراختیار ممکن نہیں البتہ سوشل میڈیا کے مثبت اورمنفی اثرات سے ہر شخص کو باخبرہونا ضروری ہے۔سوشل میڈیا کے اثرات سے بے خبری ایسے ہی ہے جیسے کہ آگ کی بھٹی سے ہاتھ سیکنا۔
عارف کسانہ نے کبھی کبھی ملکی سلامتی اورفلاح وبہبود کے تناظر میں جمہوریت کاقیام اوردائرہ کار پر کھل پر تبصرہ کیا ہے۔”بدترین جمہوریت آمریت سے ہزارگنا بہتر ہے”کا مقولہ ممکن ہے بہت سارے ممالک کے لیے مناسب ہو لیکن موصوف نے اپنے وطن عزیزمیں قائم جمہوریت کی بخیہ کنی کی ہے کہ کس قدرچند خاندان مل کر کھلے عام جمہوریت کا خون کررہے ہیں۔جمہوریت کا مطلب ہے عام لوگوں کی حکومت۔لیکن برصغیر کی سیاست اس بیمارشخص کی طرح ہے جو خود بیساکھی کا محتاج ہے لیکن درست اورسالم شخص کے پیر کاٹنے کی فکر میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔پوری دنیا جمہوریت کی کامیابی کی قصیدہ خوانی میں مشغول ہے حالاں کہ برصغیر میں حکمران جماعت اسی جمہوریت کا جنازہ نکالنے کے لیے ہروہ کام کرنے کے لیے تیار ہے جس میں ان کا ذرہ بھرمنافع روپوش ہو۔جمہوریت کا مطلب ظاہر ہے عوامی حکومت ہے۔جمہوریت کے اصل روح رواں عوام ہی ہوتے ہیں۔چناں چہ جمہوریت کے قیام پر سوال کھڑاکرنا گویااصلاح کی دعوت دینا ہے،جمہوری نظا م کا استحصال پر عارف کسانہ کا دل دردسے تڑپ اٹھتا ہے۔ موصوف جمہوریت کی کارکردگی پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
“انتخابات کے موقع پر تمام جماعتوں کے سربراہوں کے درمیان ٹیلی ویڑن پر براہ راست مباحثہ ہوتاہے۔جہاں گھنٹوں انہیں کھڑارہ کر تندوتیزسوالوں کا جواب دینا پڑتا ہے جسے عوام براہ راست دیکھ رہے ہوتے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کے ایک ہی جگہ پر قائم سیاسی کیمپ دوستانہ ماحول میں اپنی اپنی جماعتوں کے حق میں مہم چلارہے ہوتے ہیں۔یہ ہے جمہوریت جہاں سسٹم اورجماعت کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ فرد کی۔یہ ہے جمہوریت کی اصل روح اورجمہوریت کے مداحوں کو اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔جمہوریت کو اس کی اصل صورت میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔بصورت دیگر جوہورہاہے وہی ہوتا رہے گا۔عوام کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اسی چکی میں پستے رہیں یا پھراپنی نجات کے لیے جدوجہدکریں گے”۔(۷)
مذکورہ اقتباس میں غصہ ہے۔قوم کا دردہے۔ملک کی فکر ہے۔مفادپرست ،ضمیر فروش گروہ کے خلاف عوامی بیداری کی ایک کامیاب مہم ہے۔جس کی جانب عوام کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
عارف کسانہ کبھی سرکاری خزانے سے بیرون ممالک کے سرکاری دورے پرقوم سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وطن عزیز جوکہ پوری دنیا میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات کے لیے نمایاں ہے۔آخرکیا وجہ ہے کہ چینی صدرکے دوریکے وقت پارلیمنٹ اوروزیراعظم کے دفتر میں آویزاں قومی پرچم ترکی سے درآمد کیے گیے تھے؟اس ضمن میں عارف کسانہ نے اقبال کایہ شعر
تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالین ہیں ایرانی
لہومجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
پیش کرتے ہوئے سرکاری دورے پرخرچ کا ایک عمومی جائزہ عوام کے سامنے پیش کیا ہے جس سے قومی خزانے دن بدن خالی ہورہے ہیں۔حالاں کہ اس دورے سے نہ ملک اورنہ عوام کو کسی طرح کا کوئی قومی فائدہ ہورہاہے۔آخریہ کب تک حکمراں جماعت قومی خزانے یوں ہی لٹاتے رہیں گے؟
عارف کسانہ کبھی تاریخ اسلام اور اسو�ۂحسنہ کی روشنی میں سیاست میں شفافیت کے لیے پرزورآواز بلند کرتے ہیں۔’ہرشخص وہاں لٹیرا ہے‘کے عنوان سے ایک کالم میں ایک مغربی مفکر کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ جوکچھ ہم سیاست میں اپنی جماعت ،سیاسی سرگرمیوں اورحصول اقتدارکے لیے کرتے ہیں اگروہی کچھ اپنی ذات کے لیے کریں توسب سے بڑے شیطان کہلائیں۔اگرواقعی اس تجزیے پر غور کریں توواقعی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے۔اپنے اہل سیاست پر نگاہ دوڑا لیکن کہ کیا دورحاضرہ میں کوئی ایک بھی سیاست دان جھوٹ،ریاکاری،منافقت، ہوس اقتدار،الزام تراشیوں اوردوسری برائیوں سے مبرا ہے۔بدقسمتی سے اس فہرست میں وہ سب شامل ہیں جو نظریاتی سیاست کے دعویٰ دارہیں اوروہ بھی جومذہب کے نام پر کارزارسیاست میں سرگرم عمل ہیں‘‘۔(۸)
عارف کسانہ کبھی تاریخ کائنات کی عقدہ کشائی،بگ بینگ اورقرآن جیسے اہم صفحات میں اسلامی نظریہ پیش کرتے ہیں تو کبھی تخلیق کائنات،بگ بینگ اورقرآن کی شکل میں سائنسی نظریات،وجودکائنات ،خالق باری کی وحدانیت اوراختیارات خداوندی قرآنی آیات سے واضح کرتے ہیں۔’ معمار حرم کا پیام انقلاب’ایک استعاراتی مضمون ہے۔ عارف کسانہ نیحبیب اورخلیل کاذکرتے ہوئے لکھا ہے کہ دین ودنیا میں بلندی وسرخروئی کے لیے ایثاراورقربانی ایک لازم شئی ہے۔حضرت ابراہیم نے اپنی سب سے پسندیدہ شئی کی قربانی پیش کی تھی ،وہ قربانی پوری دنیا کے لیے ایک انقلابی پیغام تھا۔قوم مسلم اپنے اسلاف اورقرآنی تعلیمات کی روشنی میں خود کو اللہ کی رضااورخوشنودی کے لیے کام کریں ورنہ زبانی جمع خرچ ایک عام وباہے جس کا نتیجہ یقیناًہلاکت اورگمراہی ہے۔علامہ اقبال نے حرم پاک سے ایک آفاقی نظریہ پیش کیا ہے جو قوم مسلم کے لیے اہم پیغام ہے۔
ہے طواف وحج کا ہنگامہ اگر باقی توکیا
کند ہوکررہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
آج روح ابراہیم درس حریت دے رہی ہے:
معمارحرم! بازبہ تعمیر جہاں خیز
ازخواب گراں ،خواب گراں،خواب گراں خیز!
صنم کدہ ہے جہاں اورمردحق ہے خلیل
یہ نکتہ ہے کہ پوشیدہ لاالہ میں ہے
’جموں ۳۰ کلومیٹر‘میں عارف کسانہ نے علامہ اقبال کے اس نظریے سے استفادہ کیا ہے:
ہندوستان آئے ہیں کشمیر چھوڑکر
بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور
کشمیر کا وطن جو مجھے دلپذیرہے
اسی باغ جاں فضاکا یہ بلبل اسیر ہے
عارف کسانہ کا دل بھی آبائی وطن کی یاد میں ہمیشہ محورہتا ہے۔اس دلی کیفیت کی رواداس کالم میں دیکھی جاسکتی ہے۔
‘جشن مسرت’سے عارف کسانہ کبھی پوری دنیا میں منعقد ہونے والے تیوہارکی روایت پر بات کرتے ہیں تو کبھی اسلامی جش اورتیوہارکی قطعیت پرعقلی اورنقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔عصرحاضرکا سب سے حساس موضوع ‘جہاداورفساد’میں عارف کسانہ نے لکھا ہے کہ کس طرح جاہل اورذہنی طورپرکمزورطبقہ نے دانستہ اورغیردانستہ جہادجیسی اہم اصطلاح کو غلط معانی ومفاہیم پہنا دیا ہے جس سے پوری دنیا میں ایک خاص شکل وصورت اورمذہب کے لوگ شک وشبہ کی نظروں سے دیکھے جارہے ہیں۔جہاد کا موجودہ عملی نظریہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔کیوں کہ جہاد کا معنی جنگ وجدال،قتل وغارت گری نہیں ہے بلکہ جہاد کا معنی جدوجہد، کوشش ہے۔کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری کوشش اورطاقت کا استعمال کرناتاکہ مقصد میں کامیابی حاصل ہوجائے۔قرآن نے اسی مفہوم میں جہاد کا لفظ استعمال کیا ہے۔عارف کسانہ لکھتے ہیں:
”قرآن مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتا ہے صرف اس لیے کہ فتنہ اورظلم ختم ہوجائے اوردنیا میں امن قائم ہو۔اسلام صرف اپنے دفاع کے لیے جنگ کا حکم دیتا ہے یا پھر ظلم اورزیادتی روکنے کے لیے چاہے یہ کسی کی بھی طرف ہو۔یہ جنگ بنیادی حقوق انسانی کے لیے ہوگی جس کی کچھ شرائط ہیں”۔(۹)
علامہ اقبال نے کہا تھا:
اللہ سے کرے دورتوتعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے توشمشیر بھی فتنہ
شمشیرہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
علامہ اقبال ایک عظیم فلسفی ،عظیم مفکراوربرصغیر کے عظیم سپوت تھے۔آپ کی شعری تخلیقات یقیناًانسانیت کے لیے عظیم سرمایے ہیں۔علامہ اقبال نے اپنی نظموں سے قوم مسلم کی بیمارذہنیت کی تربیت کی ہے۔ایسی تربیت جس کی نظیر ڈھونڈنا ناممکن نہیں تو مشکل ہے ضرورہے۔عارف کسانہ نے علامہ اقبال اورمیاں محمدبخش کی زندگی نامہ کا ایک نچوڑ پیش کیا ہے جس سے دونوں شخصیات سے قارئین متعارف ہوتے ہیں۔میاں محمدبخش علامہ اقبال ہی کی طرح عاشق رسول اورانسانیت کے ترجمان تھے۔دونوں کا تعلق کشمیر سے تھا ،علامہ اقبال پیغام رسانی کا کام اردواورفارسی میں کرتے تھے جب کہ میاں صاحب نے یہی کام پنجابی میں انجام دیا۔ اقبال فہمی میں عارف کسانہ کا دوسرامضمون ‘کیا اقبال محض ایک شاعر تھے’قارئین کے لیے اقبال فہمی میں اضافہ ہے۔’پاکستانی عوام کی حالت کیوں نہیں بدلتی’پاکستانی عوام کے لیے نصیحت آموز کالم ہے۔عارف کسانہ کے دیگرمضامین مثلا’مستقبل اسکول سے شروع ہوتا ہے،اسڑیس ذہنی دباوآپ کا مقدرکیوں ہو،میراپیمبرﷺعظیم ترہے،حضور ﷺاہل یورپ کے لیے بھی رحمت،مکالمہ کی ضرورت،دہشت گردی کے خلاف فکری جہاد،اسلام کیا ہے؟پاکستان ،سویڈن سے بہت کچھ سیکھ سکتا تھا،جینیاتی سائنس کی حیرت انگیزدنیا،تو باقی نہیں ہے۔وہی ذبح بھی کرے ہے،وہی لے ثواب الٹا،چانکیہ کے پیروکار،اقبال اورداگ ھمارشولد،باب کشمیر،چونڈہ توآباد رہے گا،ایک اورپاکستان کی بنیاد،شہادت امام حسین اورعلامہ اقبال،آزادی صحافت اورمیڈیا کا کردار،سیالکوٹ تو زندہ رہے گا،حرمت قلم اورہمارے اہل قلم ،خصوصی افرادکے ساتھ ہمارا رویہ،لوگوں کی مشکلات کم کیوں نہیں کرتے،اقبال کا پیغام عمل،چھوڑدیں دوسروں کے گلے شکوے اوراپنے رب سے تعلق قائم کریں،حقوق نسواں اورقرآن حکیم،ختم نبوت۔انسانیت پر احسان عظیم،راہبروں کے ضمیر،مسلمانوں کی پستی :وجوہات اورحل،قرآن فہمی اورنوجوان نسل کی مشکلات،ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں ؟ ، دورحاضر کے خضر راہ،قرآن،سائنس اوروجودباری تعالیٰ،امت مسلمہ میں زوال علم وحکمت،تلاش ،اقبال اورجناح کا تصورپاکستان،اقبال،اجتہاداورعصرحاضر،ہمارے بارے میں خدائی فیصلہ،قیامت موجود،نقاش پاکستان کا تصور پاکستان،اسلام اورسیکولرازم کی بحث،امورمملکت اورقرآن،نظریہ پاکستان سے پاکستانی قوم تک،عوام خود ذمہ دار ہیں،نسل انسانی کی بقا خطرے میں اور صرف تعلیم نہیں بلکہ تربیت بھی۔
مذکورہ تمام عناوین پر عارف کسانہ نے دینی،قومی،مذہبی اورملی حمیت کے جذبے سے سرشارہوکر اپنی آراپیش کی ہیں۔تمام کالمز
میں ایک بات ہر جگہ واضح طورپر نظرآتی ہے کہ موصوف اپنی بات کی جامعیت کے لیے دنیا کی سب سے اہم کتاب قرآن حکیم کاسہارالیتے ہیں۔کالمز میں انداز بہت سادہ ہے۔پوری انسانیت کے لیے پیغام یکساں ہیں۔تمام کالمزکا اسلوب نہایت سادہ وسلیس ہے۔ہرطرح کے افراد عارف کسانہ کی تحریر سے مستفید ہورہے ہیں۔عارف کسانہ کا بیانیہ اتنا اچھوتا ہے کہ عنوان ہی مضمون کی قرات پر مجبورکردیتا ہے۔یک بابی افسانہ کی طرح یک بابی کالم بھی ہے جو قارئین کو ایک نقطہ عروج پر پہنچانے میں معاون ومددگار ثابت ہوتا ہے۔عارف کسانہ کے بامعنی اورمستحکم مضامین سے اکیسویں صدی میں سیکڑوں افردایک ساتھ استفادہ کررہے ہیں۔عارف کسانہ کی تحریرکی خاصیت یہ ہے :
‘‘انسان کے کردارکی دومنزلیں ہیں۔یاتودل میں اترجانایا دل سے اترجانا،ڈاکٹر عارف صاحب دل میں اترنے کے ماہر بھی ہیں اورعادی بھی’’۔(۱۰)
حواشی:
۱۔ افکارتازہ ص۔۹۔۱۰
۲۔ افکارتازہ۔ ص ۔۱۰
۳۔ افکارتازہ ۔ص ۔۱۹
۴۔ افکارتازہ ۔ص۔۲۰
۵۔ افکارتازہ۔ ص۔ ۲۱
۶۔ افکارتازہ ۔ص۔ ۲۷
۷۔ افکارتازہ۔ ص۔ ۴۶
۸۔ افکارتازہ ۔ص۔ ۵۱
۹۔ افکارتازہ۔ ص۔ ۷۴
۱۰۔ افکار تازہ۔ص۔ ۸۱
