عارف محمودکسانہ کی زندگی کے کئی زاویے ہیں۔ان میں ایک اہم رخ پیشہ وارانہ زندگی ہے۔موصوف نے کئی اہم عہدوں پر اپنی خدمات انجام دی ہیں۔لاہور،پاکستان میں چھ سال تک ریٹرینری آفیسر ہیلتھ کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔کم وبیش ایک سال تک سعودی عرب میں بھی اسی نوعیت کی ملازمت کرچکے ہیں۔کارولن سکا انسٹی ٹیوٹ سٹاک ہوم میں میڈیکل ریسرچ کے شعبہ جینیٹک انجنئرنگ میں پچھلے ۱۰۰۲سے وابستہ ہیں۔واضح ہوکہ کارولن سکا انسٹی ٹیوٹ بشمول سویڈن پوری دنیا میں اپنی انفرادی شناخت رکھتاہے۔کارولن سکاانسٹی ٹیوٹ ایک مشہور ومعروف میڈیکل یونیورسٹی ہے جو ہرسال فزیالوجی اورمیڈیسن کے نوبل انعام کا فیصلہ کرتی ہے۔
عارف کسانہ کی شناخت بطورصحافی ہے۔عارف کسانہ پوری دنیا میں بحیثیت صحافی جانے اورپہچانے جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے دوران عارف کسانہ رزعی یونیورسٹی فیصل آباد میں اپنے ٹیوٹوریل گروپ کا جنرل سیکریٹری منتخب کیے گیے تھے۔ اسی دوران انہوں نے مختلف اخبارات و رسائل میں لکھنے کا بیڑہ اٹھایا۔اخبارات میں مضامین اورکالمز لکھنے کا سلسلہ یوں تو پاکستان میں رہتے ہوئے بھی جاری وساری تھا لیکن سویڈن میں آکر باقاعدگی سے یہ سلسلہ دراز ہوگیا اورابھی بھی لکھنے کا عمل جاری ہے۔عارف کسانہ سویڈن میں قیام کے دوران ‘جنگ’ لندن سے منسلک ہوگیے۔ ان کا مقبول زمانہ کالمز’شمالی یورپ کی خبریں‘اور’سویڈن کی ڈائری‘نے قارئین میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ روزنامہ ’جنگ‘کے علاوہ روزنامہ’ اذکار‘اسلام آباد، روزنامہ’کشمیر ایکسپریس‘مظفر آباد، روزنامہ’اڑان‘جموں اور دیگر کئی اخبارات کے ادراتی صفحہ پر ہفت وار کالم’ افکار تازہ‘کے نام سے شائع ہورہا ہے۔موجودہ وقت میں عارف کسانہ روزنامہ’اوصاف‘ لندن کے سویڈن میں بیور چیف کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ ہفتہ کے روز’ اوصاف‘ لندن کے صفحہ دو پر موصوف کا کالم’ افکار تازہ‘باقاعدگی سے شائع ہورہاہے۔عارف کسانہ عصرحاضر کے مشہورومعروف آن لائن اخبارات ورسائل میں مسلسل شائع ہورہے ہیں۔ آن لائن اخبارات ورسائل میں خبریں، کالم، سویڈن کی ڈائری ، بچوں کے لیے اسلامی معلوماتی کہانیاں اور دوسری تحریریں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہورہی ہیں۔
عارف کسانہ نے دو سال تک’جیو نیوز ‘کے لیے بھی کام کیا تھاجس کی پوری تفصیل ویڈیو رپورٹس(عارف کسانہ کا اپنا ویب سائٹ) کے سیکشن میں دیکھی جاسکتی ہے۔ساتھ ہی مختلف اخباررات و جرائد اور ریڈیو کے ذریعے قارئین اور سامعین سے ادبی،فکری اورعلمی تعلقات قائم ہیں۔روزنامہ’ ایکسپریس نیوز‘اورروزنامہ’ ڈان نیوز‘جیسے مشہورومعروف اخبارات میں بلاگ لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سویڈن کی وزارت خارجہ کے تعاون سے عارف کسانہ سویڈن میں صحافیوں کی تنظیم’فارن پریس ایسوسی ایشن‘کے اہم رکن ہیں۔ عارف کسانہ کی صحافتی سرگرمیاں شہرت وناموری کی محتاج نہیں ہے بلکہ تمام سرگرمیاں ایک مشن ہے۔قوم وملت کے ساتھ پوری دنیا کے لیے رضاکارانہ کام ہے۔اپنی قلمی کاوش کے عوض آج تک موصوف نے کسی سے کسی قسم کا کوئی بھی مالی معاوضہ نہیں لیا ہے۔ یہ تمام ترسرگرمیاں خدمت خلق کے لیے وقف ہے۔ ملی اورقومی حمیت کا غلبہ اس قدرحاوی ہے کہ اس قلمی جہاں میں جنون کے حد تک قومی خدمات انجام دیے جارہے ہیں۔جو یقینافکر اقبال کی روشنی میں افکار تازہ سے فیضیاب ہوکر جہان اورکائنات کے لیے ذہنی تازگی کا سامان مہیا کررہے ہیں۔اس تازگی اورقومی سرمایے میں عارف کسانہ کی بیش قیمتی خدمات آب زرسے لکھنے کے قابل ہیں۔
عارف کسانہ نے صحافتی مصروفیات کے ساتھ ایک اور اہم ماہانہ پروگرام’درس قرآن‘کا سلسلہ جو۱۱ نومبر۲۰۰۷کوشروع کیاتھا۔یہ سلسلہ ہر ماہ باقاعدگی سے جاری ہے۔ جون ۲۰۱۵ تک ۵۸ درس کی نشستیں منعقد کی جاچکی ہیں۔مزید یہ سلسلہ جاری ہے۔ سٹاک ہوم سٹڈی سرکل (www.ssc.n.nu )کے منتظم کی حیثیت سے ہر ماہ عارف کسانہ کی رہائش گاہ پر قرآن پاک کادرس دیا جاتاہے۔ جس میں قرآن حکیم کی تعلیمات پر غور وفکر کی جاتی ہے۔قرآن کریم میں زندگی کے عملی مسائل کا حل تلاش کرنے کی ایک دل چسپ اور قابل ستائش کوشش ہے۔سویڈن میں موجود برصغیر سے تعلق رکھنے والے اہل علم و دانش جن میں ڈاکٹر، انجنئیر، ماہرین تعلیم، سیاستدان، تاجر، طالب علم اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے احباب درس قرآن میں شرکت کررہے ہیں۔درس قرآن کے ذریعے قرآن پاک کوجدید تقاضے اورجدیدمضامین کے لحاظ سے سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جدیدموضوعات سے ہم آہنگ نظریات وخیالات قرآن حکیم کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش جاری ہے۔قرآنی آیات، احادیث نبویہ ، فکر اقبال ، علوم جدیدہ اور دیگر متعلقہ معلومات کو شامل کیا جاتاہے۔درس قرآن کے لیے ایک Power Point Presentation تیار کیاجاتا ہے جوپروگرام کے بعد بذریعہ ای میل ان تمام احباب کو ارسال کردیا جاتا ہے جو کسی وجہ سے پروگرام کا حصہ نہیں بن سکے۔
میں نے پہلے ہی ذکرکیا تھا کہ عارف کسانہ کی زندگی جس طرح مختلف النوع ہے اسی طرح انہوں نے اپنی زندگی کوکئی سمتوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ذکرکردہ تمام نکات کا تعلق پیشہ روانہ اور صحافتی زندگی سے تھا۔موصوف ان سب کے علاوہ ایک اچھے ادیب،مصنف اور مبلغ بھی ہیں۔اخبارات ورسائل میں شائع شدہ کالمزکا مجموعہ بنام ’افکارتازہ‘ ۶۱۰۲ میں شائع ہوا تھا۔عارف کسانہ اور افکار تازہ سے متعلق محمد شریف بقا لکھتے ہیں۔
’’ عارف محمودکسانہ ایک بے حد ذہین ،محنتی ،روشن دماغ اورپرخلوص انسان ہیں۔ان کی رائے میں قرآن مجید اورفرقان حمید ایک ایسی لاجواب کتاب ہدایت ہے جو لازوال حقائق ومعارف کا انمول خزینہ بھی ہے اورانسانی زندگی کے جملہ مسائل کا تسلی بخش حل بھی ہے۔اگرانسان صدق دل سے اس کامطالعہ کرے تو اسے پتا چلے گاکہ یہ کتاب زندہ ہے،ہمارے عصری مسائل کی عقدہ کشائی بھی کرسکتی ہے،بقول اقبال:
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت اولازوال است وقدیم
حرف اولاریب نے،تبدیل نے
آیہ اش شرمندہ تاویل نے‘‘(۱)
مزید لکھتے ہیں:
”یہ امر باعث افسوس ہے کہ ہمارے اکثر اہل علم وادب نے ہماری نئی نسل خصوصا یورپ اورامریکہ وغیرہ میں مقیم بچوں اوربچیوں کے بارے میں بہت کم کتب تصنیف یا مرتب کی ہیں۔اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری نڑادنوہماری ملی روایات اورتاریخ وعلم سے گہرا تعلق قائم رکھے تو پھر ہمیں اپنے نوجوان اورنئی نسل کو اپنے علمی وادبی ذخائر سے واقف رکھنا ہوگا۔یہ بات وجہ مسرت وانبساط ہے کہ محترم عارف کسانہ نے علمی انکشافات کی روشنی میں اسلامی تاریخ سے متعلق کہانیاں اورقرآنی تعلیمات پر مبنی مگر دلچسپ اندازمیں مضامین لکھے ہیں۔ان کی یہ کاوش یقیناًقابل ستائش اورلائق تقلید ہے۔”(۲)
محمدشریف بقاماہراقبالیات میں اپنی منفردشناخت رکھتے ہیں۔مطالعہ اقبال پر ان کی گہری نظر ہے۔عارف کسانہ کے لیے چند توصیفی جملے یقیناًسند کی حیثیت رکھتے ہیں۔عارف کسانہ کی خدمات دیکھ کر ہرذی شعورافرادداددیے بنا نہیں رہ سکتا۔دنیا میں قرآن پاک ہی وہ واحد کتاب ہے جوپوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔قرآن کی افہام و تفہیم اکیسویں صدی میں امت مسلمہ کے ساتھ پوری نسل انسانی کے لیے ضروری ہے۔عارف کسانہ کا درس قرآن کی ماہانہ نشست کااہتمام بذات خود ایک محترم اورنیک کام ہے۔
’افکارتازہ‘کی وجہ تصنیف سے متعلق عارف کسانہ نے خودلکھاہے:
” جب میں نے اخبارات وجرائد میں لکھنا شروع کیا تو اس وقت یہ ذہن میں نہیں تھا کہ ان تحریروں کو کسی وقت کتاب کی صورت میں شائع کیا جائے گا۔لیکن بہت سارے احباب اورقارئین نے اصرارکیا کہ چونکہ میری اکثرتحریریں مستقل نوعیت کی ہیں اس لیے انہیں ایک کتاب کی شکل میں شائع ہونا چاہیے۔اسی نوعیت کا مشورہ کا مشورہ محترم غلام صابر چیئرمین اقبال اکیڈمی اسکینڈے نیویاڈنمارک اورمحترم محمدشریف بقا صدرمجلس اقبال لندن نے بھی دیا۔یہ دونوں حضرات خود بہت بڑے محقق،اہل علم،بہت سے کتابوں کے مصنف اوریورپ میں فکراقبال کو متعارف کرانے میں ہر لمحہ مصروف عمل ہیں۔”(۳)
کسی بھی اہم اورنیک کام کیلیے محرک کا ہونا ضروری ہے۔عارف کسانہ کے لیے جو بھی احباب اورذی شعورافرادمحرک بنے ہوں انہوں نے سیکڑوں قارئین پر بڑااحسان کیا کہ جو ان کی قیمتی تحریرسے استفادہ کررہے ہیں۔عارف کسانہ کی شخصیت چوں کہ علمی اور عملی دونوں کا حسین سنگم ہے۔اس لیے انہیں قلم کی حرمت کا بخوبی اندازہ ہے۔موصوف خود لکھتے ہیں:
”کسی بھی لکھنے والے کو حرمت قلم کا امین ہوناچاہیے تاکہ وہ پوری دیانت داری سے اپنی بات قارئین تک پہنچاسکے۔الحمداللہ یہ اہمیت ہمیشہ میرے پیش نظررہی اوربفضل تعالیٰ اس ذمہ داری کوبطریق احسن نبھایا ہے۔اپنے قلم کو نہ توغلو اورخوشامدکی آلائشوں سے آلودہ کیا اورنہ ہی حق اورسچ بات لکھنے میں کوئی خوف اورترددہوا۔حکیم الامت کی پیروی میں ساز سخن کو بہانہ بناتے ہوئے اپنی سوچ اورافکار کو لفظوں میں پرویا اورسپردقلم کیا ہے۔یہ ایک لگن ہے،ایک جنون ہے،ایک جذبہ ہے اورایک جدوجہدہے خلوص کے ساتھ جاری ہے اوراس مشن کا کچھ حصہ اس کتاب کی صورت میں اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔”(۴)
سچے انسا ن اور بے باک صحافی دراصل مافی الضمیرکی آواز ہی کو اہمیت دیتے ہیں۔مافی الضمیر کی آوازدراصل صحافت کی روح ہے۔صحافت کی نمایاں خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ صحافتی تحریر تملق اورچاپلوسی سے کوسوں دورہو،ایمانداری اوردیانیت داری کا دامن کسی بھی صورت میں ہاتھ سے جانے نہیں دیا،یہی دراصل صحافت کی معراج ہے۔عارف کسانہ ان تمام باتوں کو عملی طورپر برتتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں ان سب معائب سے پاک ہیں۔لکھنا اورپڑھنا عارف کسانہ کا محبوب مشغلہ ہے چناں چہ اسی خواہش کی تکمیل نے غلواورخوشامدسے دوررکھاہے۔
(جاری ہے )
