49

جدید دُنیا کا بلند ترین عزم۔۔۔”برتری” (نقطہ نظر:ڈاکٹر ریاض رضیؔ)

آج کی دُنیا کا بلند ترین عزم کیا ہے؟ میرے پاس اِس کا جواب ہے اور یہ جواب میرا ہی نقطہ نظر ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کا موقف جُدا ہو اور آپ کی نظر میں کسی اور موقف کی نشاندہی ہوتی ہو۔ میرا ماننا ہے کہ آج کی دُنیا کی سب سے بڑی بھوک “برتری” ہے۔ یعنی خود کو بُلند سے بُلند درجے پر فائز کرنے کےلئے کسی بھی نوعیت کا اقدام اُٹھانا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضرورت بھی ہے۔ اِس لئے آئے روز کسی نہ کسی ایشو پر طاقت کے نشے میں دُھت ممالک اپنے عزائم کو انسانیت کے خلاف استعمال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کو نہ انسانیت سے غرض ہے اور نہ ہی انسانی اِقدار سے۔ وہ وقار، عزت اور ترقی کو صرف اپنا حق سمجھتے ہیں۔
ہم عالمی سطح کی بات کیوں کریں؟ خود ہمارے معاشرے میں جہاں ہمارا بسیرا ہے، اُس میں بھی افراد کے درمیان باہمی مسابقت ایک عام سی بات ہے۔ ہر فرد اپنے سماجیانہ مقام کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ مدِمقابل کو پچھاڑنے اور اُس کی کسی بھی طرح سے تذلیل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بعض اوقات شخصی حیثیت کو برقرار رکھنے کےلئے اپنے مخالف کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ کیا یہ انسان کی فطرت ہے؟ اگر ہاں تو پھر فطرتِ انسانی کی خلقت اِس نہج کی کیوں رکھی گئی ہے؟ میرے پاس ان دو سوالوں پر بحث کرنے کےلئے مذہبی نقطہ نظر بھی ہے اور تاریخی شواہد بھی کہ نسلِ انسانی کی فطرت کا یہ خون آشام پہلو اس قدر بھیانک کیوں ہے؟
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ انسانی فطرت میں باہمی مسابقت کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ لوگ اپنی حیثیت کو نمایاں کرنے کےلئے دیگر لوگوں سے اُلجھ جاتے ہیں تاکہ اُن کی اَنا کو تسکین میسر ہو۔ مذہب نے ہمیں بتایا کہ “ہر انسان فطرتاً اسلام میں پیدا ہوتا ہے۔” مسلمان یا اسلام کی قید سے دیگر ادیان جیسے عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت وغیرہ خارج ہوگئے۔ کیا اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ فطرتاً اسلام میں پیدا ہونے کے باوجود بعد میں مسلمان نہیں رہتے کسی اور دین کے پیروکار بن جاتے ہیں اُن کی فطرت کو ہم بغاوت کے زُمرے میں شامل کریں درآنحانکہ اُس کی فطرت تو اُس وقت (پیدائش کے وقت) معصوم ہے اور دُنیا کی مذہب پرستی اور فرقہ پرستی سے بالکل بھی نابلد ہے۔ یا کوئی اور وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ پاکیزہ فطرت ایک اچھی خصلت کی حامل ہونے کے باوجود کسی اور راستے کی راہی بن گئی؟
بتایا گیا کہ اُس کے والدین یہ فریضہ انجام دیتے ہیں کہ بیٹا! تم اب یہودی بنو، عیسائی بنو اور فلاں فلاں اور فلاں بنو۔ پھر مسلک کی بات آئے تو کہتے ہوں کہ میرے لال! اب تم کو شیعہ بننا ہے، سُنی بننا ہے، وہابی بننا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اِس تقسیم کے بعد مزید گنجائش رہتی ہے کہ کسی اور دین یا مذہب کے بارے میں اچھی رائے یا نیت پیدا ہوسکے؟ دینِ اسلام کی تعلیمات ہمیں قطعاً اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی انسان سے صرف اس وجہ سے نفرت کریں کہ وہ کسی اور دین کا ماننے والا ہے۔ اسلام کی نظر میں وہ انسان، انسان ہونے کے اعتبار سے قابلِ احترام ہے۔ اُس کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ ہے۔ اب کسی انسان جس نے مسلمانیت کا لبادہ تو اوڑھ لیا لیکن عملی مسلمان بننے کی توفیق ہرگز نہ ہوئی اُس کے انفرادی عمل کو اسلام کی اجتماعی تعلیمات کے مدِ مقابل کھڑا نہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ مسلمان بھی اُس فطرت کا حامل ہے جو شعور کی پختگی حاصل کرنے کے بعد کسی اور راستہ پر چل پڑتا ہے۔ اُس حدیث کے ٹکڑے کو ذہن میں رکھیئے کہ اسلام کو فطرت میں لے کر پیدا ہونے والا مسلمان بھی اپنی عمر کے آخری حصے میں پاکیزہ فطرت کا باغی ہوسکتا ہے۔ کیا ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ ایک مسلمان دُنیا جہاں کی بُرائیاں انجام دے اور آخر میں فخر بھی کرے کہ ہو نہ ہو کہ میں فطرتاً اسلام میں پیدا ہوا اور بعدازاں مسلمانیت کے راستے پر بھی چل پڑا۔ جو کچھ بھی میری ذات سے مترشح ہو، وہ قابلِ معافی اس اعتبار سے ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
حدیثِ مبارکہ کو وسیع معنوں میں لینا ہی اِس جُملے کی دُرست تعبیر ہوسکتی ہے۔ کوئی اسلام والی فطرت کو لے کر ضرور پیدا ہو لیکن اُس فطرت کی تکمیل تب ہی ہوسکتی ہے جب وہ انسانیت کے ناطے روا رکھے گئے تمام اُصول کو ظاہراً اور باطناً دونوں صورتوں میں قبول کرے۔ وگرنہ ایسی فطرت کا اسلام سے کیا تعلق جو دعویٰ تو کرے انسانیت و مسلمانیت کا لیکن کردار و عمل میں وہ “اسفل السافلین” کا مصداق ہو۔ جیسا کہ سطور بالا میں کہا گیا کہ ایسی فطرت ہی کیوں رکھی گئی ہے کہ جو انسان کو انسانیت کا دُشمن بنادے، مسابقت کے نام پر حسد اور جلن کا عنصر پیدا ہو.
اِس نوع کی فطرت کا تعلق بھی انسانی ترقی اور نشو و نما سے ہے۔ شاید مالکِ کائنات نے انسانیت میں یہ خصلت پیدا کرکے جتلایا ہے کہ تم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے ہی جیسے انسان کی ترقی اور کامیابی کو اپنا وطیرہ نہ بنالو۔ یعنی کہ مثبت مسابقت کی تشویق کا پہلو رکھا گیا ہے۔ محنت اور لگن کا ایک ایسا پہلو آشکار کیا گیا ہے جس میں آگے بڑھنے، چھان بین کرنے اور تلاش و جستجو کی تمام صفات بیک وقت پیدا ہوں۔ البتہ جلن اور حسد جیسی خصلتوں کی نشاندہی کرنا اس لئے ممکن نہیں ہے کہ یہ دونوں خصلتیں انسان کو انسانیت کا دشمن بنادیتی ہیں۔ اور جہاں دشمنی کا عنصر ہو وہاں مثبت مسابقت کا شائبہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا وہ فطرت کہ جو مثبت خصلتوں کا مجموعہ ہو اُس میں کوئی بُرائی یا خامی نہیں ہوسکتی اور جس فطرت میں شُروع دن سے ہی حسد اور جلن جیسی عادتیں عود کر آئیں وہ فطرت تخلیق کے اعتبار سے اسلام والی نہیں ہوسکتی۔ حدیثِ پاک کے اُس ٹکڑے کے مفہوم کو اِسی تناظر میں سمجھا جائے۔
ہماری آج کی سوسائٹی جہاں اداروں کی بھرمار ہے، اُن اداروں میں کام کرنے والے افراد بھی اُس فطرت کے حامل بن چُکے ہیں جس میں مسابقت کا پہلو ضرور موجود ہے لیکن بدقسمتی سے وہ مسابقت باہمی حسد و جلن کی نذر ہوچکی ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا رویہ اِس قدر عام ہے کہ شاید اسلامی تعلیمات بھی کہیں مدہم سے پڑ گئیں ہیں۔ حالانکہ ہماری سوسائٹی کا ہر فرد جانتا ہے کہ اداروں کا باہمی ربط و ضبط اور پھر تعاون وہ نتیجہ خیز پہلو ہے کہ جس کے ثمرات صدیوں تک محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ جب تک کہ وہ ادارے باہمی تعاون کے بندھن میں بندھے رہیں گے تب تک اُن کی عزت، وقار اور شناخت برقرار رہے گی۔ جیسے ہی وہ حسد اور جلن سے بھرپور فطرت کے حامل افراد سے پُر ہوجائیں گے، وہ ادارے تنزلی کی طرف جائیں گے۔ یہ غور کرنے کی بات ہے کہ صرف حسد اور جلن سے ہی ایک انسان اپنا مقام کیسے بناسکتا ہے؟ جبکہ یہی انسان اپنی قابلیت اور صلاحیت کا اظہار کرسکتا ہے۔ تعمیری مسابقت کا حامل بن سکتا ہے۔ پھر چاپلوس فطرت کو اپنانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ اُس کی فطرت کے کسی پہلو میں بے ضمیری کی خمیر شامل ہوگئی ہے۔ یقین مانیں کہ ایسے افراد کسی بھی ادارے کی یکمشت تنزلی کےلئے کافی ہیں۔
خُلاصہ کلام یہ کہ انسانیت کے باہمی میل میلاپ کو پرکھیں تو پہلی اور آخری وجہ یہی نظر آتی ہے کہ من حیثُ الانسان معاشرے میں موجود افراد ایک ہی فطرت کے حامل ہیں اور وہ فطرت یہی ہے کہ وہ دین کے راستے پر چلنے سے قبل اور کسی مذہبی پیروکار کی حیثیت سے پہلے صرف اور صرف انسان ہیں۔ بعد میں یہ تقسیم عود کر آتی ہے کہ وہ اپنے اپنے دین کے پیروکار ہیں۔ اب اگر اُس کی نیک خصلتیں اُس کی پیدائش سے لے کر مرنے دم تک برقرار رہتی ہیں تو شاید اُس کی فطرت بھی سالم اور دینِ اسلام کی پیروکار فطرت قرار دی جاسکتی ہے۔ لیکن وہ فطرت کہ جو اپنی پیدائش خصلت کھو بیٹھی ہو اور مسلمان بھی رہے تو ہم کس حیثیت سے اُس کی پاکیزگی کے قائل ہوجائیں؟ یہ سوال نہایت اہم اور دقیق مطالب کا محتاج ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں