جب ہم نہیں ہونگیں خود کو برباد کرو گے،
کس کے سامنے آہ و گریہ، فریاد کرو گے،
گزرے لمحوں کو اپنی پر نم آنکھوں میں،
ہر منظر، پس منظر میں مجھے یاد کرو گے،
امیدوں کے جہاں کا تو تقاضا ہے یہی،
جو نہ بر آئیں، تو خوب فساد کرو گے،
میری چاہت نے نہ چھوڑا اسے کسی قابل،
جا کر کسی کا گھر کیا خاک آباد کرو گے،
کرلو اپنی کوشش، لگاو درگاہوں کے پھیرے،
میری عادت سے کیسے خود کو آزاد کرو گے،
زبان ہے گنگ اور خیالات ہیں قفل میں،
کچھ بھی کہوں تم سے، فقط تضاد کرو گے،
فریفتہ ہے جان جس کے ناز و نخروں پہ نعمان،
نکلنے کے لئے اسکے سحر سے کب جہاد کرو گے۔