94

تو سلامت رہے تاقیامت وطن

23 مارچ 1940 برصغیر کی تاریخ میں وہ یادگار دن ہے جس دن ہندوستان کے مسلمانوں کو علیحدہ وطن کی قرارداد منظور ہونے کی خوشخبری ملی. اس دن کو پاکستان میں یوم پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. ذرا تصور باندھیئے کہ لاہور کا منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کے نمائندے اپنے گوہر یگانہ قائد جناب محمد علی جناح کی قیادت میں ان لاکھوں لوگوں کو آزاد وطن کے حصول کی خوشخبری سنارہے ہیں جو غمزدہ اور دل شکستہ ہیں جن کے کندھے اپنے جوانوں کے جنازے اٹھاتے اٹھاتے جھک چکے ہیں مگر پاکستان کو پانے کی خوشی ان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر رہی ہے اور وہ پورے جوش و جذبے سے اپنے قائد کے سامنے کھڑے ہیں.
مسلمانان ہند کو ایک آزاد وطن حاصل کرنے کی کامیابی راتوں رات حاصل نہیں ہوئی . اس کے لئے لاکھوں دل خون ہوئے اور ہزاروں تمنائیں خاک میں ملیں، گھر بار لٹے، عہدے چھنے، قیمتی جانوں کا نذرآنہ پیش کیا تب یہ گھڑی سامنے آئی اور وہ ایک آزاد ملک کے حقدار ٹہرائے گئے.
سوال یہ ہے کہ وہ کون سی وجوہات تھیں کہ جن کی بدولت صدیوں سے یہاں رہنے والے مسلمانوں پر ہندوستان کی زمین تنگ ہوکر رہ گئی اور وہ ایک علیحدہ وطن کی ضرورت شدت سے محسوس کرنے پر مجبور ہوئے. سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کب اور کیسے آئے؟
تاریخ کی رو سے ہندوستان میں سب سے پہلے جنوبی ہند میں مسلمان تاجروں کی آمد ہوئی جو ہندوستان میں کونکن، مالابار اور گجرات کے ساحلی شہروں تجارت کرتے ہوئے سری لنکا ،برما، ملایا اور چین تک جاتے تھے. بعد میں انہی میں سے کچھ قبیلوں نے جنوبی ہند میں اپنی بستیاں بسالیں جہاں پر راجا داہر کی حکومت تھی. جس کو عرب سپاہ سالار محمد بن قاسم نے شکست دے کر اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی تھی. اس جنگ کے واقعات چچ نامہ نامی کتاب میں لکھے ہیں جسے محمد علی بن حامد بن ابوبکر کوفی نے 1216 ء میں ترجمہ کیا تھا. سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور محقق ڈاکٹر نبی بخش چچ نامے کی شرح میں لکھتے ہیں کہ چچ نامے میں لفظ شہادت کے استعمال سے گمان یہ ہوتا ہے کہ چچ کے لشکر ،میں کچھ مسلمان سپاہی بھی شامل تھے.
ان تاجروں کے بعد 711ء میں عرب، محمد بن قاسم کی کمان میں فاتح کی حیثیت سے سندھ میں وارد ہوئے اور اقتدار حاصل کیا. بعد ازاں ترک، افغان اور مغل حکمرانوں نے یکے بعد دیگرے ہندوستان کا رخ کیا اور مسند اقتدار حاصل کیا.
مسلم حکمرانوں کے دور میں ہندوستان میں مسلمان مہاجرین کی آمد بھی وقت کے ساتھ ساتھ ہوتی رہی جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ایران اور وسط ایشیا سے تھا. افغانستان کے بادشاہ بہلول لودھی نے بھی اپنے دور حکومت میں بہت سے افغان باشندوں کو اپنی مدد کے لیے ہندوستان بلوایاجو وہیں آباد ہوگئے. ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان مقامی مسلمانوں کی بھی تھی جو اپنے پرانے مذہب کو ترک کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تھے.
یہ بات درست ہے کہ مسلمانان ہند کا تہذیب و تمدن ہندوستان کی دوسری قوموں ہندوؤں، سکھوں اور جینیوں سے یکسر علیحدہ تھا حالانکہ ہندوستان میں مسلمان مختلف ملکوں سے آکر جمع ہوئے تھے مگر چونکہ ان کا مذہب ایک تھا اس بات نے ان کو متحد اور دوسروں سے جداگانہ رکھا ہوا تھا. بہت سے مسلمان بادشاہوں نے ہندوؤں کے ساتھ خاصہ رواداری کا سلوک روا رکھا اور نہ صرف انہیں اپنی حکومت میں اہم عہدے عطا کیے بلکہ ہندو عورتوں سے شادی بیاہ بھی کیا لیکن عوامی سطح پر عقیدے کا واضح فرق ہمیشہ درمیان میں رہا. یہی فرق آگے چل کر دو قومی نظریئے کی اساس بنا.
ہندوستان میں مسلمانوں کے عروج کی صدیوں پر محیط داستان کو زوال پزیر کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ حکمران طبقے کا تھا. اورنگزیب عالمگیر کے زمانے سے ہی اقتدار کے حصول کی خاطر کی جانے والی سازشیں، رقابتیں اور عیاشیاں حکمرانوں کا خاصہ بن چکی تھیں. خود اورنگزیب بے ہی اپنی ایک بہن کے ساتھ ملکر اپنے بھائیوں کو قتل کروادیا اور آخر میں اپنی اس بہن کو بھی مروا دیا جس نے اس کا ساتھ دیا تھا. حکمران عیاشیوں میں اس قدر گھرے ہوئے تھے کہ انہیں نہ اپنی سلطنت میں ہونے والی بغاوتوں کا احساس رہا تھا اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود کا. یہ حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان جو تین اطراف سے سمندر سے گھرا تھا اس کی ساحلی حفاظت کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہ کی گئی حالانکہ محمد بن قاسم سمندر کے راستے ہی ہندوستان میں داخل ہوا تھا. انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے کو سہل کرنے میں سمندری راستے سے آنے والے ان یورپی تاجروں کا بہت بڑا ہاتھ تھا جن کی رسائی دربار تک تھی اور جو سلطنت برطانیہ کو ہندوستان کی پل پل کی خبریں دیتے تھے. یہی وجہ ہے کہ جب انگریز اپنے جنگی جہاز لے کر ہندوستان میں داخل ہوئے تو کوئی انہیں روکنے والا نہیں تھا.
مسلمانوں کی زبوں حالی پر آخری کیل 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد لگا دی گئی جب کہ مسلمانوں میں شدید مایوسی پھیل چکی تھی. مزاحمت کے ولولے دم توڑ چکے تھے. ان پر اور ان کے دین پر ہر طرف سے تنقید کی جارہی تھی. نوجوانوں پر تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کردیئے گئے تھے. انہیں ہندوستانی معاشرےمیں محکوم قوم ہونےکا احساس ہمہ وقت دلایا جاتا تھا. اگرچہ بہت سے مسلمان شاعر، لکھاری، اور مذہبی شخصیات مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں لیکن مسلمانان ہند کو ایک ایسے قائد کی ضرورت تھی جو ان کو ایک چھت تلے یکجا کرسکے اور خدا کے فضل و کرم سے وقت نے ثابت کیا کہ بالآخر محمد علی جناح کی صورت میں انہیں ایسا قائد نصیب ہوا جو ان کا نجات دہندہ بن کر قائد اعظم کہلایا.
پاکستان کی جدوجہد آزادی صرف چند ایک کی قربانی کا نام نہیں. یہ ایک جذبہ تھا جو مسلمانوں میں لہو بن کر دوڑا اور کوئی شک نہیں کہ آج اناسی (79) سال گزرنے کے باوجود پاکستانی اپنے وطن کے حوالے سے ایسا ہی جذبہ رکھتے ہیں.
جنھوں نے وطن عزیز کے حصول کی خاطر دکھ سہے، تکالیفیں اٹھائیں ان کی اولادیں بھی پاکستان کی پکار پر لبیک کہنے سے نہیں چوکتیں. اس کی بہترین مثال موجودہ حکومت کے دور میں قائم ڈیم فنڈ کی ہے کہ کیا ملک میں رہنے والے پاکستانی اور کیا پردیس میں رہنے والے پاکستانی سب ہی اس میں بڑھ چڑھ حصہ لے رہے ہیں. پاکستانیوں کی اپنے وطن سے بے لوث محبت کا یہ عالم ہے دنیا میں وطن سے محبت کرنے والی قوموں کے اعداد و شمار میں پاکستانی قوم کا نام ہمیشہ سرفہرست رہتا ہے. خدا سے دعا ہے کہ ہمارے وطن عزیز پاکستان کو ہر بری نظر سے محفوط رکھے اور اسے قائم و دائم رکھے. پاکستان زندہ و پائندہ باد.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں