موجوں کے خوف سے مٹ گئے ابھرتے بکھرتے ریت پہ سب نشاں
تیری تلاش کی جستجو دیکھ مجھ کو لے آئی ہے کہاں
مجبور یہ راستے، کے کرنا سکے میری منزل کی پیروی
کھو گئے اس لہد میں جانے میرے خواب کہاں
اپنے وجود کی حرارت سے تیری لغزش کو محسوس کیا کرتے ہیں
کون جانے کے یہ نین پا سکیں گے اپنے تارے کہاں
انتظار بھی مجھ پر چھاہ گیا ہو جیسے کسی بدمستی کی طرح
لگتا ہے سمجھ گیا ہے دِل ، کے تمام مرادیں پوری ہوتی ہیں کہاں
مظلوم بنے پھرتے ہیں ، کیسا ظلم کر ڈالا پِھر بھی اپنے آپ پے
جس وجود پے زور چل نہ سکا ، اسکی روح نیلام کر آئے ہم کہاں
اپنی بےخودی سے خود ہی ہراساں ہووے پھرتے ہیں . . .
اپنے ہونے کا سبب جانے ہم بھول آئے ہیں کہاں . . .
~ بیلا ثمرین