پاکستان میں جولائی میں ہونے والا الیکشن 2018 اپنے اختتام کو پہنچا جس میں تحریک انصاف پاکستان نے واضح اکثریت سے برتری حاصل کی. عنقریب اب وہ مرحلہ آنے والا ہے کہ وہ حکومت کا انتظام سنبھالیں. 26 جولائی کو نتیجہ آنےکے بعد تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ عمران خان نے اسلام آباد میں واقع اپنی رہائشگاہ سے قوم سے ایک مختصر خطاب کیا. گو کہ یہ خطاب پاکستان میں سیاسی روایت ہے جس کی انجام دہی تمام برسراقتدار آنے والے کرتے چلےآئے ہیں لیکن عمران خان کے اس خطاب میں ایسی کیا بات تھی کہ جس کو سننے کے بعد نہ صرف پاکستانیوں کی بڑی تعداد ان کی مدح سرائی کرتی پائی گئی بلکہ بیرونی دنیا بھی کلمہ تحسین کہنے سے رک نہ سکی.
ہماری قومی زبان اُردو میں آسان پیرائے میں کیا گیا عمران خان کا خطاب پاکستانی عوام کے دل کی آواز تھا جس کو مدت سے کسی نے سننے کی کوشش نہیں کی تھی. یہ کوئی جذبات سے بھری ہوئی، لاحاصل وعدوں اور طفل تسلی پر مبنی گفتگو نہیں تھی بلکہ اس میں انہوں نے قوم کے درد کی بات کی جس کا سامنا پاکستانی قوم زمانے سے کررہی ہے. انہوں نے اچھی طرح باور کرایا کے کہ پاکستانی قوم کی بھلائی کی راہیں کیا ہیں.
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں ہی پاکستان کو لاحق مرض کی اصل جڑ پر ہاتھ رکھ کر واضح کردیا کہ جڑوں میں بیماری ہو تو پتوں کو پانی دینے سے کوئی افاقہ نہیں ہوگا. مرض کو ختم کرنے کے لیے جڑ کی مناسب دیکھ بھال ضروری ہے. پاکستان کی ترقی صرف سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میں مضمر نہیں ہے بلکہ کردار کی تعمیر کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے جُزولاینفک ہے.
ملکی و غیر ملکی مبصرین بھی اس بات کے قائل نظر آئے کہ دوران خطاب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے قول میں صداقت اور عزم کا مظاہرہ بھرپور انداز میں جلوہ گر دکھائی دیا. انہوں نے جو کچھ کہا اس کی انجام دہی پر مکمل یقین کیا جاسکتا ہے. انہوں نے شارع اسلام کی سیرت کے مطابق چلنے کا اعادہ کیا، سادگی اپنانی کی بات کی،بیجا اصراف کو سرے سے ختم کرنے کی حمایت کی، ملک میں تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کرنے کی اہمیت پر زور دیا، عوام کے حقوق کی بحالی پر بات کی، ہمسائے ممالک سے تعلقات پر مدبرآنہ سوچ پیش کی اور سب سے بڑھ کر انصاف کے پلڑے کو بلاامتیازاونچا رکھنے کا عزم کیا.
پچھلے پچیس تیس سالوں سے پاکستانی قوم جن مشکلات میں گھری ہوئی ہے اب تک اس میں صرف اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے. مہنگائی، بیروزگاری، غربت، جہالت ہی صرف پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ نہیں رہے، معاشرتی اور اخلاقی طور پر بھی ہم مہذب قوم کے معیار پر پورے نہیں اترپارہے. کوئی بھی دیدہ ور اس بات سے انکار نہیں کرسکے گا کہ ان سالوں میں ہم کس تیزی سے پستی میں گرتے چلے گئے ہیں. ہماری طرز رہائش سے لیکر طرز گفتگو تک میں ہمارے اقدار کی کوئی جھلک نہیں نظر آتی ہے اور سب سے بڑھ کر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمیں یہ جاننے کی خواہش بھی نہیں کہ کن وجوہات کی بناء پرہم اس پسپائی پر مجبور کردیئے گئے ہیں. آج ہماری قوم اس خود رُو پودے کی مانند ہوگئی ہے جس کا کوئی مالی نہیں. ایسے شورش زدہ حالات میں عمران خان اور ان کے مثبت مقاصد ہم پاکستانی عوام کے لیے بند کمرے میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں.
گو کہ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ عمران خان کے حکومت سنبھالتے ہی پاکستان کے سارے دلدر دور ہوجائیں گے اوراب راج کرے گی خلق خدا، کے مصداق معاشرہ ہوجائے گا مگر ہاں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی ذات پاکستان کی دکھی اور ستم رسیدہ عوام کے لیے طمانیت اور تقویت کا باعث ضرور ثابت ہوگی. انہیں معلوم ہے کہ جس پر انہوں نے اعتماد کیا ہے نہ وہ قومی سرمائے کی لوٹ کھسوٹ میں مشغول رہا ہے اور نہ ہی اس کو محلات شاہی و مراتب شاہی سے کوئی سروکار ہے. بالیقین پاکستان کو ایک ایسے ہی میر کارواں کی ضرورت تھی.
