برلن جرمنی کا دارالحکومت اور پینتیس لاکھ آبادی کے ساتھ سب سے بڑا شہر ہے جو قدیم و جدید دونوں انداز کے ساتھ وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا۔ اس شہر کی سیاحت کے لئے ہم نے زمینی راستہ اختیار کیا اور سویڈن کے دارالحکومت سے تقریبا چودہ سو کلومیٹر سفر کرکے یہاں پہنچے۔ کار کے ذریعہ زمینی سفر کا اپنا مزا ہوتا ہے جس سے راستہ میں گذرتے ہوئے پورے خطہ کی سیاحت ہوجاتی ہے۔ کوپن ہیگن پہنچنے کے لئے ہمیں ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان بحیرہ بالٹک پر سولہ کلومیٹر طویل پل جس کا چار کلومیٹر حصہ زیر آب یعنی سمندر میں ایک ٹنل کی صورت میں ہے عبور کرنا پڑا۔ کوپن پیگن سے 170کلومیٹر فاصلہ طے کرکے ڈنمارک کے ساحلی قصبہR248dbyہمارا پہلا پڑاؤ تھا۔ اگلے روز وہاں سے فیری لی تاکہ جرمنی کے ساحلی شہر پُٹ گارڈن پہنچ سکیں۔ اٹھارہ کلومیٹر فاصلہ کوئی پون گھٹہ میں طے ہوا اور دوران سفر فیری میں مسافروں کی تفریح اور خریدداری کے لئے ہر طرح کی سہولتیں موجود تھیں۔
پٹ گارڈن سے ہمیں چارسو کلومیٹر سفر طے کرکے جرمنی کے مشہور شہر برلن پہنچنا تھا۔ جرمنی میں کشادہ سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے اور یہاں کی موٹر وے کو آٹوبان کہتے ہیں اور پورے ملک میں ایک جال کی طرح پھیلی ہوئی اس موٹر وے کے بہت سے حصہ میں کوئی حد رفتار نہیں۔ تیز رفتار گاڑی چلانے والے یہاں اپنا شوق دل کھول کر پور کرتے ہیں۔ سویڈن میں موٹر وے پر 120کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ گاڑی نہیں چلائی جاسکتی اس لئے میری اہلیہ نے جرمن آٹوبان پر تیز رفتار گاڑی چلانے کا شوق جی بھر کر پورا کیا اور 190 کلومیٹر فی گھنٹہ تک گاڑی چلائی اورمیری درخواست پر انہوں نے اس سے زیادہ رفتار نہ بڑھائی۔ برلین جاتے ہوئے لہلاتے کھیت بھی دیکھنے کو ملے جن میں پنجاب اور سندھ کی جھلک نظر آئی۔ترقی یافتہ ممالک میں توانائی کی ضروریات بھی زیادہ ہیں اور جرمنی جیسے صنعتی میں اور بھی زیادہ توانائی چاہیے اس لئے جابجا ہمیں بجلی پیدا کرنے والی ہوئی چکیاں نظر أئیں جو ماحول دوست بھی ہیں۔
دریائے اسپرے کے کنارے واقع برلن شہر جرمنی کی عظیم تاریخ اور ماضی کا گواہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی شکست کے بعد فاتح چار ملکی اتحادی افواج یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سویت یونین نے اسے چار زون میں تقسیم کر کے بانٹ لیا ۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس پر مشتمل حصہ مغربی جرمنی (Federal Republic of Germany) جبکہ سویت یونین کے تحت حصہ مشرقی جرمنی (German Democratic Republic)کہلایا۔اسی طرح برلن شہر کو بھی مضربی اور مشرقی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ مشرقی جرمنی اور مشرقی برلن سے بہت سے لوگ کیمونسٹ طرز حکومت کی سختی اور دیگر جبری قوانین سے بچنے کے لئے مغربی جرمنی اور مغربی برلن کی جانب ہجرت کرنے لگے۔ مشرقی جرمنی کی حکومت نے یہ سلسلہ روکنے کے لئے مغربی جرمنی کے ساتھ اپنی 1400 کلومیٹر طویل سرحد کو ناقابل عبور بنا دیا ۔مشرقی برلن سے مغربی برلن سرحد پار کرنے کی کوششوں کو ختم کرنے کے لئے1961میں مشرقی جرمنی کی پولیس نے 155 کلومیٹر لمبی دیوار تعمیر کردی جس کا 43 کلومیٹر حصہ مشرقی اور مغربی برلن کے درمیان تھا۔دیوار برلن میں 302 واچ ٹاور تھے اور گیارہ ہزار مسلح سپاہی دن رات اس کی نگرانی کرتے تھے ااور بلا اجازت عبور کرنے والوں کے سزائے موت مقرر کردی ۔ اس جبری بندش کو مشرقی برلن کے باشندوں نے قبول نہ کیا اور دس ہزار سے زئد لوگوں نے اسے عبور کرنے کی کوشش کی لیکن نصف تعداد ہی اس میں کامیاب ہوسکی جبکہ دو سو سے زائد افراد جان سے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقی جرمنی کے گارڈ جو اسے عبور کرنے والوں کو روکنے کے لئے تعینات تھے ، ان میں سے چھ سو کے قریب خود مغربی جرمنی فرار ہوگئے۔
یہ جبری ناطہ اور جرمن عوام کو تقسیم کرنے والی دیوار 9نومبر 1989ء میں عوامی ریلے کے آگے منہدم ہوگئی اور دونوں حصے آپس میں پھر سے مل گئے۔ یہ ان غاصب قوتوں کے لے بھی پیغام ہے جنہوں نے جموں کشمیر اور دنیا کے کچھ اور علاقوں میں عوام کودیوار برلن جیسی رکاوٹوں اور جبری رکاوٹوں سے منقسم کررکھا ہے کہ زیادہ عرصہ لوگوں کو غیر فطری طور پر ایک دوسرے سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی شہر میں اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے لئے ربع صدی سے ایک تنظیم بزم ادب قائم ہے جس کے جنرل سیکریٹری سرور غزالی ہیں۔ وہ صاحب طرز ادیب اور منفرد اسلوب کے حامل افسانہ نگار ہیں جن کی کتب ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دیوار برلن کے انہدام والے دن سب جرمن گھروں سے نکلے اور ہر ایک کے ہاتھ میں ہتھوڑا یا توڑنے والی کوئی چیز تھی اس طرح عوامی ریلہ کے آگے وہ دیوار زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی۔ اب دیوار برلن کا تھوڑا سا حصہ باقی رہنے دیا گیا ہے جسے اب ایسٹ گیلری کا نام دیا گیا ہے اور جس پر دنیا بھر کے مصوروں نے اس پر اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔مصوروں نے بہت دلچسپ انداز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے ا اور دیووار پر نقش ونگار بنا کر اسے ایک ٓرٹ گیلری بنا دیا ہے۔ زیادہ تر مصوروں نے امن ، بھائی چارے اور جبری تقسیم کے خلاف پورٹریٹ بنائے ہیں۔ ایسٹ گیلری کا یہ علاقہ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے اور ساتھ ہی دریا کے کنارے کوئی نہ کوئی سرگرمی جاری رہتی ہے۔برلن کے ریلوت اسٹیشن کی عمارت بہت شاندار ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ منقسم برلن میں یہ ریلوے اسٹیشن سرحد کا کام دیتا تھا۔
برانڈنبرگ گیٹ اس شہر کی پہچان ہے اور یہاں ہر وقت سیاحوں کا رش رہتا ہے۔ یہ باب فتح اٹھارویں صدی میں تعمیر کیا گیا اور اسے شہر کے مرکزی دروازہ کی حیثیت حاصل تھی۔ یونانی فن تعمیر کا یہ شہ کار تین محرابوں پر مشتمل گیٹ ہے جس پر امن کی دیوی باورین رتھ پر ایک ہاتھ میں چار ببر شیروں کی لگامیں تھامی کھڑی ہے اور دوسرے ہاتھ میں صلیب کا نشان جس کے اوپر عقاب ایک شان سے بیٹھا ہوا ہے۔ نپولین نے جب برن پر حملہ کیا تھا تو وہ اس مجسمہ کو اٹھا کر لے گیا تھا لیکن بعد میں اسے دوبارہ اس کی جگہ پر نصب کردیا گیا۔ منقسم جرمنی کے دور میں یہ علاقہ غیر تھا اور یہاں کسی کو پر مارنے کی بھی جرات نہ تھی لیکن اب یہاں ہر وقت لوگوں کا رش لگا رہتا ہے۔ جیب دیوار برلن تعمیر ہوئی تو یہ گیٹ اس کی ایک راہداری کا حصہ بن گیا لیکن اب یہ جرمنی کے اتحاد اور وقار کی علامت ہے۔یہاں کی کشادہ سڑکیں اور اور وسیع علاقہ جرمنی کی قدیم و جدید تاریخ کا گواہ ہے۔ اس دروازے کے ساتھ ہی بہت اور تاریخی عمارتیں ہیں جو قابل دید اور فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔
دیوار برلن اور برانڈنبرگ گیٹ کے علاوہ یہاں ٹی وی ٹاور ، آرٹ اکیڈمی ،برلن کیتھیڈرل، ہٹلر کا آخری بنکر، پارلیمنٹ ہاوس اور دوسری اہم تاریخی عمارتیں ہیں۔ جرمنی کی تاریخ خصوصاََ جنگ عظیم دوم کے دور میں ہونے والے اہم واقعات کی یاد میں شہر میں بہت سی یادگاریں اورمجسمے ہیں۔ برلن وکٹری کالم بھی شہر کی سیاحت کرنے والوں کا ایک اہم مرکز ہے۔ اہم سڑکوں کے درمیان ایک گول چکر کے اندر77 میٹر اونچے مینار پر وکٹوریا کا سنہری مجسمہ یہاں سے ہر گذرنے والے کو اپنی جانب متوجہ کرلیاہے۔ یہ مینار انیسویں صدی میں بریشیا (قدیم جرمنی) کی فرانس، آسٹریا اور ڈنمارک سے ہونے ہونے والی جنگوں میں فتح کی یاد میں بنایا گیا ہے اور دوسری جنگ عظیم میں اسے کوئی نقصان نہ پہنچا۔ ساتھ ہی سڑک کی ایک جانب اس دور کے فیلڈ مارشل ہیلمتھ بیرن ہارڈ مولتکے کا مجسمہ ہے ۔ اگر وقت ہو تو شہر کے میوزیم بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں جو عہد ماضی کو اس انداز سے دیکھا رہے ہیں کہ جیسے ہم خود اس دور میں چلے گئے ہوں۔ کئی سیاح مدام تساؤ کے مومی مجسمہ گھر کا بھی رخ کرتے ہیں۔ خواتین اور بچے ساتھ ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی خریداری مرکز کا دورہ نہ کیا جائے۔ برلن کی نواح میں واقع آؤٹ لیٹ میں سب نے جی بھر کے خریداری کی جہاں اشیاء کی قیمتیں بہت مناسب اور سویڈن سے کافی کم تھیں۔ ان طویل مصروفیات کے بعد ہوٹل میں وہ نیند آئی بمژکل ناشتہ سے پہلے اٹھ سکے۔ اگلے بلاگ میں جرمنی کے ہی ایک بہت خوبصورت اور تاریخی شہر کا تذکرہ ہوگا۔