66

اِنسانیت تذلیل سے خُلاصی چاہتی ہے

(عرض ہے کہ مذکورہ گفتگو اِنسانیت کی قدر و قیمت کو اُجاگر کرنے کےلئے ضبطِ تحریر میں لائی گئی ہے۔اِس میں فکر کی جُولانیوں کو اُبھارنے کا سامان فراہم کیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ معاشرہ کا وہ تمام تر فکری ملبہ جو ہماری کوتاہیوں اورغفلتوں سے کہیں پسِ پردہ چلا گیا ہے، اُس کو پھر سے زندہ و جاوید کیا جائے۔ اِس تحریر کے مخاطبین نسلِ نو کے عظیم”سپوت“ ہیں۔ ڈاکٹر ریاض رضیؔ)

کلیدی الفاظ: اِنسانیت، تذلیل، کردار و گفتار،عملداری،قوانینِ فطرت

قوانین کی آبیاری اور عملداری:
اِنسانیت کی تذلیل نہ کرنے کی ہمت و صلاحیت صرف اُس شخص میں ہوتی ہے جو واقعی میں کردار و گفتار کا غازی ہو۔ ایک انسان دوسرے انسان کی تذلیل کرکے سمجھتا ہے کہ وہ بدلے کی آگ سے خُلاصی پاچُکا ہے جبکہ وہ نہیں جانتا کہ جس شخصیت کی تذلیل سے وہ اپنے ذہن کو آلودہ کرچکا ہے، دراصل اُس نے انسانیت سے راہِ فرار اختیار کرنے کی روش اپنالی ہے۔ ہم نے اپنی دُنیا میں کئی سو لوگوں کو دیکھا ہے، وہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قوانین کی آبیاری اور عملدار ی کا تعلق دوسرے انسان کی ذلت سے ہے۔ بڑے ہی خوش مزاج انداز میں اور اپنے من کی سکونت کےلئے کسی انسان کی تذلیل کو گوارہ کرنا کس دین یا مذہب کے مبادی اُصول ہیں؟ قوانینِ فطرت کی عملداری تو بنا کچھ کہے اور بغیر کسی سہارے کے ہوہی جاتی ہے پھر انسانیت کو خصوصیت کے ساتھ ذلت آمیز سلوک سے نتھی کرنا کس اُصول کے تحت ہے؟ کیا قوانین انسانوں کےلئے نہیں بنائے جاتے؟
جب یہ بات طے ہے کہ قوانین کی ضرورت انسانوں کو ہے اور انسان قوانین کی ضرورت نہیں ہے تو پھر اُن قوانین کو مستحکم کرنے کےلئے انسان کو ذلت آمیز سلوک سے گزارناانصاف کا تقاضا نہیں ہے۔ بے شک مُلکی اور سماجی حالات کی دُرستگی کےلئے بعض اوقات سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ کیونکہ اُن فیصلوں کے بغیر نہ تو ملکی حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں اور نہ ہی سماجی معاملات کی دُرستگی برقرار رہ سکتی ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب انسان ہے اور انسانیت کی بقاء، عزت و وقار قائم ہے، تب تک یہ قوانین بھی عظیم سے عظیم تر اور متبرک سے متبرک رہیں گے لیکن جیسے ہی انسانیت بکھرتی رہے گی، منتشر رہے گی اور اپنے ہی جیسے انسان کے زیرِ عتاب رہے گی ، وہ دن نہ قوانین کو قائم و دائم رکھنے کا ضامن ہوگا اور نہ ہی سماج کو وہ عروج ملے گا جس کےلئے انسان اور انسانیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اداروں کی بقاء انسانیت کی تذلیل میں نہیں چھپی ہے بلکہ انسان کو انسانیت کے حقیقی جذبہ سے آشنا کرنا ہی دراصل انسانیت کی معراج ہے۔ جن معاشروں میں انسان کو حقِ انسانیت سے محروم رکھا گیا یا اُن کو ذلت بھرے لمحوں سے گزارنے کی سعی کی گئی وہ معاشرے ہمیشہ زوال سے بھی نیچے کے مرحلے تک پہنچ گئے۔ البتہ اُن معاشروں کی نیّہ ہمیشہ پار رہی جہاں انسانیت کو درجہ اولیٰ کی مخلوق سمجھا گیا۔

مُسلم سماج کی بے ترتیبی:
ہم مُسلم معاشروں کو قریب سے دیکھتے ہیں تو ہمیں انسانیت کے ساتھ ذلت آمیز برتاؤ کی طویل کہانیاں نظر آتی ہیں۔ اِن معاشروں کی زُبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کہیں کہیں گھناؤنے جرائم کو انجام دینے میں ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں کی جاتی۔ قتل و غارت گری، معاشرے میں سراسمیگی اور اِنتشار کا توایک طویل سلسلہ ہے۔ نہ رحم کا شائبہ نظر آتا ہے اور نہ ہی برداشت کا کوئی عنصر دکھائی دیتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر عدمِ برداشت کا رویہ اپنانا آج کے مسلم معاشرے کی سب سے بڑی شناخت ہے۔ یاد کریں اُن وقتوں کو جب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں راہ چلتے انسان کو لوٹنا کس قدر آسان تھا۔ یہاں تک کہ ایک معمولی موبائل چھیننے کی اُجرت مقرر تھی اور وہ اُجرت ایک انسان کا آسان قتل تھا۔ خون آشام گلیوں کی کہانیاں بھری پڑی ہیں۔ قدم قدم پر خوف اور دہشت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں کسی انسان کو خوف و ہراس میں مُبتلا کروں چہ جائیکہ میں کسی مسلمان کے قتل کا مرتکب قرار پاؤں؟ وہ حدیث ہماری نظروں سے کیسے اوجھل ہوسکتی ہے جس میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مسلمان ہی اُس کو قرار دیا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ و مامون رہے۔ یہاں تو سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی سینہ ٹھونک کر کہا جاتا ہے کہ: “الحمدُ اللہ میں مسلمان ہوں” ایسی مسلمانیت کی تشریح میرے قلم سے تو ممکن نہیں البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہم نے مسلمانیت کے لبادے میں اخلاقیات و انسانیات کا سبق یکسر بُھلا دیا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کا واقعہ بھی دل دہلا دینے والا اور انسانیت کو شرمندہ کرنے واقعہ حادثہ تھا کہ جس نے کراچی کی پُرامن (سابقہ) شبیہہ کو خراب کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ لگ بھگ تین سو کے قریب انسان اپنی ہی انسانیت کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے اور اپنے بعد والوں کو پیغام چھوڑا کہ واقعی میں اگر تمہیں مسلمانیت کا اقرار ہے تو پہلے انسان بننا سیکھو۔

سوچیں ذرا:
ایک معاشرے کو منتشر ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ سالوں کی بات مت کریں، یہاں تو لمحے چاہیے۔ یہی کراچی میں ایک معروف سیاسی تنظیم کے رُکنِ اسمبلی کے قتل کو اِس قدر ہنگام سے بھرپور دیکھایا گیا کہ پورا شہر تین دن تک اُس جماعت کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا۔ مجھے یاد ہے کہ تین دن وہ تمام لڑکے زیرِ عتاب رہے جو ہاسٹلوں میں رہائش پذیر تھے۔ نہ بازار سے اشیائے خورد نوش دستیاب تھیں اور نہ ہی ہوٹلوں اور تندور کو کھولنے کا کوئی مجاز تھا۔ ہر اِک نے چُپ سادھ لی تھی۔ نہ کچھ کہنے کی جُرأت کسی میں تھی اور نہ ہی اُس جماعت کو اِنتشار سے نسبت دینے کی کسی میں ہمت تھی۔ تین دِن کے بعد بالآخر معاشرہ سانس لینے لگا اور انسانیت کو اِحساس ہوا کہ وہ اب زندگی کی طرف لوٹنا چاہتی ہے۔ ہم نے اُس دِن دیکھا کہ انسانیت کا احترام کس قدر کمزور ہے۔ نہ کسی میں انسانیت کا پاس تھا اور نہ ہی کوئی اخلاقیات کا سبق یاد کرنا چاہتا تھا۔ کسی میں اگر کوئی چاہ تھی تو وہ انسانیت کو ذلت آمیز صورت حال سے گزارنے کی تھی۔ تین دن کے بعد حالات جیسے پُرسکون ہوئے اور لوگوں(انسانیت) نے سُکھ کا سانس لیا۔ اِس طرح کی حرکات و سکنات کسی بھی منتظم اور مکمل معاشرے کی شناخت نہیں ہوسکتیں۔ چہ جائیکہ ایسے معاشرے کو لوگوں کےلئے مشعلِ راہ قرار دیں۔

مُسلم سماج کا اخلاقی اِنحطاط:
سب سے زیادہ بدبختی کی علامت یہ ہے کہ مسلمان جس دینِ مقدس کے پیروکار کی حیثیت سے شناخت رکھتے ہیں اُن کے ہاں اخلاقیات کی شدید قلت ہے۔ لوگوں میں شعور کی حد درجہ کمی کے ساتھ ساتھ خُلقِ انسانیت کا مادہ بھی غائب ہوچکا ہے۔وہ دین کہ جس نے ہمیشہ انسانیت کی بات کی اور انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بتایا اُس دین کے پیروکاروں نے آج تک نہ شرمندہ ہونا سیکھا اور نہ ہی مزید غلطیوں سے اجتناب برتنے کی روش کا اِظہار کیا۔ وہ دین کہ جس کے عظیم پیغمبر کو کلامِ خدا میں ”خُلقِ عظیم“ کے عظیم مرتبہ کا حامل قرار دیا گیا، اُس دین کے متوالوں نے زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقیات کو گروی رکھنے کی رسم پوری طرح ادا کی ہے۔ معاشرے ہوں کہ ادارے، ملک ہوں کہ شہر، گاؤں ہوں کہ دیہات، سڑکیں ہوں کہ گلیاں ہر جاہ اسلام کو قابلِ عمل بنانے کی سعی ہم میں سے کسی نے نہیں کی۔

شہری و سماجی معمہ:
ہمارے اِس شہر (سکردو) کی طرف نظر دوڑائیے کہ پچھلے چند دنوں سے شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہواہے۔ نہ کسی کو خیال ہے اور نہ ہی کسی کو ٹَس سے گزر کر مَس کی طرف آنے کی توفیق عطاء ہوئی ہے۔ جس دین میں صفائی اور پاکیزگی کو نصف ِ ایمان کا بہترین متبادل قرار دیا گیا ااُس دین کے پیروکاروں کی سُستی اور کاہلی کو بدبختی سے تعبیرنہ کریں تو پھر کس عنوان سے یاد کریں۔ یہاں نہ مقتدر حلقوں کو اپنی ذمہ داروں کو واضح طور پر بیان کرنا ہے اور نہ ہی عام و خاص کو انفرادی ذمہ داریوں کا لحاظ رکھنا ہے۔ ہر طرف سے ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کا رویہ اِختیار کیا گیا تو پھر یقین مانئیے کہ ہماری سوسائٹی کو اِس قسم کی تحریر وں سے جگانا بعیددر بعید ہے۔

تنقید اور عمل کا اِشتراک:
مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی تنقید تو کرسکتا ہے لیکن عملی زندگی کا نمونہ بننا کوئی بھی نہیں چاہتا۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں ذمہ داریوں سے منہ چُرانا رسم ہو، جہاں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کی سواری کسی اور کے کاندھے کو گردانا ہو وہاں نہ انسانیت کی حقیقی پہچان دُر آتی ہے اور نہ ہی انسانیت سے جُڑے قوانین و مطالب کی آبیاری ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ وحشت ناک پہلو یہ ہے کہ ایسی سوسائٹی میں انسانیت کو ذلت سے نتھی کرنے کا عمل بار بار دُہرایا جاتا ہے۔ اس تحریر کا حقیقی مدعا بھی یہی تھا کہ ہم ایک ایسے پہلو کی نشاندہی کریں جو اِنسانیت کی عزت و وقار کو نمایاں کرنے کا سبب بن جائے۔ قارئین اور میرے نوجوان سپوت بتاسکتے ہیں کہ یہ تحریر کس قدر کار آمد ثابت ہوئی۔ آراء کا منتظر رہوں گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں