اس شہر میں تو مسیحا قصاب لگتے ہیں،
قصاب ہیں پھر حساس، درندہ مثال لگتے ہیں،
بھنبھورتے ہیں کلیوں کو بھوکے کتوں کی طرح،
چار دیواری میں اپنی سنبھال کے گلاب رکھتے ہیں،
سلاتے ہیں ہمارے لخت جگروں کو نیند ابدی،
دولت سے تذلیل و ہتک کا بیوپار کرتے ہیں،
ہیں دعوے بڑے، بنتے ہیں انصاف کے ٹھیکیدار،
ہے ہر جا ظلم کا پرچار یہاں، مظلوم ترستے ہیں،
تلاش کرتے ہیں خون نا حق ہر ہتھیلی پہ،
قاتل کہیں تو ہو جائیں بے نقاب یہ بھٹکتے ہیں،
ہے ہر کوئی قاتل تا حد نظر گر میں دیکھوں،
ہم ظلم کے خلاف اٹھانے سے آواز جھجکتے ہیں،
جانے کتنی زینب، عصمت، نشوا رخصت ہوئی نعمان،
جانے کتنوں کے ماں باپ راتوں کو بلکتے ہیں۔