آج کل دنیا میں ہر طرف می ٹو تحریک کا چرچا ہے خواہ وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پزیر ممالک، سب ہی جگہ اسے بھرپور پزیرائی حاصل ہورہی ہے. می ٹو تحریک دراصل ایک ایسی تحریک ہے جو معاشرے میں جنسی طور پر ہراساں کی گئی خواتین کے حق میں شروع کی گئی تھی. می ٹو کی عبارت کو سب سے پہلے 2006 میں امریکی سماجی کارکن تارانہ برکے نے مائی اسپیس نامی سوشل نیٹ ورک پر استعمال کیا تھا کہ جب زیادتی کا شکار ہونے والی ایک تیرہ سالہ طالبہ نے اس موضوع پر بات کرنے سے شرمندگی محسوس کی. تاہم اسے سوشل میڈیا پر باقاعدہ متعارف، امریکی اداکارہ ایلائیسا میلانو نے کیا. جنھوں نے پندرہ اکتوبر2017 میں ٹوئیٹر پر معروف امریکی فلم پروڈیوسر ہاروے وینسٹین کے ہاتھوں جنسی طور پر اپنے ہراساں کیے جانے کی نشاندہی کی. انہوں نے دنیا بھر میں ہراساں کی گئی خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لکھا کہ لوگوں کو اس مسئلے کی شدت کا احساس دلاؤ. ساتھ ہی انہیں اس بات کی ترغیب بھی دلائی کہ اپنے ساتھ کی گئی کسی بھی قسم کی زیادتی یا جنسی و ذہنی طور پر ہراساں کیے جانے کو ہیش ٹیگ می ٹو کے ساتھ لوگوں کے ساتھ بانٹیں تاکہ معاشرے میں چھپے زیادتی کرنے والے پراگندہ ذہن لوگوں کو بے نقاب کیا جاسکے.
ایلائیسا میلانو کی اس ٹویٹ کا اثر یہ ہوا کہ دن کے ختم ہونے تک اس ٹویٹ کو دو لاکھ افراد نے استعمال کیا اور اگلے دن یہ تعداد پایچ لاکھ پر پہنچ گئی. ہیش ٹیگ می ٹو کا حصہ بننے والوں میں امریکی فلمی صنعت (ہولی وڈ) کے بعض معروف نام بھی شامل تھے جن میں گوینتھ پالٹرو، ایشلے جوڈ، جینیفر لارنس اور اوما تھورمان قابل ذکر ہیں.
سوشل میڈیا پر چلی اس تحریک کی مقبولیت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ تحریک، یہ تکلیف دہ حقیقت بھی سامنے لارہی ہے کہ دنیا میں لاکھوں افراد جنسی زیادتیوں اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا شکار ہیں. جیسا کہ سطور بالا میں بیان کیا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پزیر و پسماندہ کوئی بھی معاشرہ اس ناسور سے بچا ہوا نہیں ہے. اقوام متحدہ کے تحت جاری ایک اعداد و شمار کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد افراد جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جاتے ہیں. حد تو یہ ہے کہ بعض مذہبی شناخت کے حامل افراد بھی اس قبیح عمل میں ملوث پائے جاتے ہیں جیسا کہ سماجی کارکن حنہ پاساش اور ایملی جوئے کی جانب سے کی گئی ٹویٹ مہم، ہیش ٹیگ چرچ ٹو کے باعث چند پادریوں کی کم عمر بچوں کے ساتھ کی گئی زیادتی کی خبر دنیا کے سامنے آئی.
خطہ برصغیر پاک و ہند میں عام طور پر لوگوں میں اس طرح کے معاملات منطر عام پر لانے کا رجحان بہت کم ہے. جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے افراد بھی شرمندگی کے باعث اس پر بات کرنے سے پہلوتہی کرتے ہیں خواہ وہ خواتین ہوں یا مرد. ان زیادتی سہنے والوں کے تامل اور خاموشی اختیار کرنے کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں. جن میں سے ایک بڑی وجہ تو یہاں کا اونچ نیچ پر مشتمل معاشرتی نظام ہی ہے جو انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اور دوسری وجہ ملک کی بڑی آبادی کا تعلیم کی کمی کے سبب شعور اور آگاہی سے دوری ہے. نتیجے کے طور پر مظلوم شرمندہ اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے سے بھی گریزاں رہتا ہے. ایک سروے کے مطابق برصغیر میں ہرسال ہزاروں خواتین اور بچے بچیاں نہ صرف جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان عورتوں اور بچیوں کی بھی ہے جو کبھی عزت و وقار کے نام پر کبھی زمین و جائیداد کی خاطر گھر والوں کے ہاتھوں اور کبھی سسرال والوں کے ہاتھوں بے قصور موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں. مقام افسوس ہے کہ بھارت میں ہر سال سات ہزار سے زائد خواتین و کمسن بچیاں جنسی زیادتیوں کا شکار ہوتی ہیں اور پاکستان میں ہر سال پانچ ہزار خواتین ناموس (آنر کلنگ) کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں جسے مقامی زبان میں کاروکاری کہتے ہیں. خیال رہے کہ یہ تعداد صرف ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کا معاملہ سامنے آجاتا ہے اور پولیس میں کیس درج کیا جاتا ہے.
تاہم اب، دنیا بھر میں پہلے کی نسبت لوگوں میں جنسی زیادتی اور تشدد کے معاملات سے نمٹنے کا شعور اور ہمت دونوں اجاگر کرنے کی خاصی کوششیں کی جارہی ہیں. مختلف سماجی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں پیش پیش نظر آتی ہیں. حکومتی سطح پر بھی ایسے معاملات پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے. خاص طور پر کم عمر بچوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں پر. ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا کردار ان معاملات میں کتنی اہمیت رکھتا ہے می ٹو تحریک اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جس نے ایک ایسی برائی کو بے نقاب کیا کہ جس سے دنیا میں لاکھوں افراد متاثر ہورہے تھے.
ہمارے معاشرے میں ابھی یہ شعورگو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن اس کے اثرات یہاں بھی نظر آنے لگے ہیں. چار جنوری 2018 میں پنجاب کے شہر قصور کی جنسی ہوس کا نشانہ بناکر بیہیمانہ انداز میں قتل کردیئے جانے والی سات سالہ زینب انصاری وہ آئینہ بن گئی جس نے معاشرے کی اس بدصورتی کو عیاں کردیا. سوشل میڈیا کی ذریعے ہی اس قتل کی بازگشت پاکستان سمیت دنیا بھر میں سنائی دی گئی. ہزارہا لوگوں نے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا اور قاتل کو گرفتار کرکے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا. خود قاضی القضات پاکستان (چیف جسٹس) میاں ثاقب نثار نے از خود متوجہ ہوکر حکام کو جلد ازجلد قاتل کی گرفتاری کی ہدایت دی. اسی کا نتیجہ تھا کہ تیرہ جنوری 2018 کو زینب کے قتل کے نو دن بعد پولیس نے ڈی. این. اے ٹیسٹ کے ذریعے قاتل عمران علی کو گرفتار کیا جس نے گرفتاری کے بعد زینب سمیت آٹھ معصوم اور کم عمر بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردینے کا اقرار کیا. انسداد دہشت گردی عدالت پاکستان نے اسے پھانسی کی سزا سنائی جس پر آج سترہ اکتوبر 2018 کو سینٹرل جیل لاہور میں علی الصبح عمل کردیا گیا.
