• آپ کے خطوط
  • ایڈیٹوریل بورڈ
  • کالم نگاراور شعراء کی فہرست
  • ہدایتی ویڈیوز
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
بدھ, 21 اپریل , 2021
3 °c
Stockholm
8 ° بدھ
6 ° جمعرات
8 ° جمعہ
7 ° ہفتہ
  • Login
Urdu Qasid Sweden | Pakistani in Sweden | Latest News
ZAQ Accounting
ADVERTISEMENT
  • صفحہ اوّل
  • سویڈن
  • تازہ ترین
  • کالمز
  • انٹرویو
  • کھیل
  • صحت
  • شخصیات
  • حلقہ اربابِ ذوق
  • پاکستانی‌ڈرامہ
  • ڈائری
  • ملٹی میڈیا
    • تصاویر اور مناظر
    • ویڈیوز
  • ہم سے رابطہ
  • تعارف
Urdu Qasid Sweden | Pakistani in Sweden | Latest News
No Result
View All Result

اتنی صدیوں میں بھی انسان کی قیمت نہ بڑھی

ڈاکٹر حنا خراسانی رضوی by ڈاکٹر حنا خراسانی رضوی
17 اکتوبر, 2018
0 0
0
25
SHARES
75
VIEWS
فیس بٗک پر شیئر کیجئےٹویٹر پر شیئر کیجئےواٹس ایپ پر شیئر کریں

آج کل دنیا میں ہر طرف می ٹو تحریک کا چرچا ہے خواہ وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پزیر ممالک، سب ہی جگہ اسے بھرپور پزیرائی حاصل ہورہی ہے. می ٹو تحریک دراصل ایک ایسی تحریک ہے جو معاشرے میں جنسی طور پر ہراساں کی گئی خواتین کے حق میں شروع کی گئی تھی. می ٹو کی عبارت کو سب سے پہلے 2006 میں امریکی سماجی کارکن تارانہ برکے نے مائی اسپیس نامی سوشل نیٹ ورک پر استعمال کیا تھا کہ جب زیادتی کا شکار ہونے والی ایک تیرہ سالہ طالبہ نے اس موضوع پر بات کرنے سے شرمندگی محسوس کی. تاہم اسے سوشل میڈیا پر باقاعدہ متعارف، امریکی اداکارہ ایلائیسا میلانو نے کیا. جنھوں نے پندرہ اکتوبر2017 میں ٹوئیٹر پر معروف امریکی فلم پروڈیوسر ہاروے وینسٹین کے ہاتھوں جنسی طور پر اپنے ہراساں کیے جانے کی نشاندہی کی. انہوں نے دنیا بھر میں ہراساں کی گئی خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لکھا کہ لوگوں کو اس مسئلے کی شدت کا احساس دلاؤ. ساتھ ہی انہیں اس بات کی ترغیب بھی دلائی کہ اپنے ساتھ کی گئی کسی بھی قسم کی زیادتی یا جنسی و ذہنی طور پر ہراساں کیے جانے کو ہیش ٹیگ می ٹو کے ساتھ لوگوں کے ساتھ بانٹیں تاکہ معاشرے میں چھپے زیادتی کرنے والے پراگندہ ذہن لوگوں کو بے نقاب کیا جاسکے.
ایلائیسا میلانو کی اس ٹویٹ کا اثر یہ ہوا کہ دن کے ختم ہونے تک اس ٹویٹ کو دو لاکھ افراد نے استعمال کیا اور اگلے دن یہ تعداد پایچ لاکھ پر پہنچ گئی. ہیش ٹیگ می ٹو کا حصہ بننے والوں میں امریکی فلمی صنعت (ہولی وڈ) کے بعض معروف نام بھی شامل تھے جن میں گوینتھ پالٹرو، ایشلے جوڈ، جینیفر لارنس اور اوما تھورمان قابل ذکر ہیں.
سوشل میڈیا پر چلی اس تحریک کی مقبولیت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ تحریک، یہ تکلیف دہ حقیقت بھی سامنے لارہی ہے کہ دنیا میں لاکھوں افراد جنسی زیادتیوں اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا شکار ہیں. جیسا کہ سطور بالا میں بیان کیا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پزیر و پسماندہ کوئی بھی معاشرہ اس ناسور سے بچا ہوا نہیں ہے. اقوام متحدہ کے تحت جاری ایک اعداد و شمار کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد افراد جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جاتے ہیں. حد تو یہ ہے کہ بعض مذہبی شناخت کے حامل افراد بھی اس قبیح عمل میں ملوث پائے جاتے ہیں جیسا کہ سماجی کارکن حنہ پاساش اور ایملی جوئے کی جانب سے کی گئی ٹویٹ مہم، ہیش ٹیگ چرچ ٹو کے باعث چند پادریوں کی کم عمر بچوں کے ساتھ کی گئی زیادتی کی خبر دنیا کے سامنے آئی.
خطہ برصغیر پاک و ہند میں عام طور پر لوگوں میں اس طرح کے معاملات منطر عام پر لانے کا رجحان بہت کم ہے. جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے افراد بھی شرمندگی کے باعث اس پر بات کرنے سے پہلوتہی کرتے ہیں خواہ وہ خواتین ہوں یا مرد. ان زیادتی سہنے والوں کے تامل اور خاموشی اختیار کرنے کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں. جن میں سے ایک بڑی وجہ تو یہاں کا اونچ نیچ پر مشتمل معاشرتی نظام ہی ہے جو انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اور دوسری وجہ ملک کی بڑی آبادی کا تعلیم کی کمی کے سبب شعور اور آگاہی سے دوری ہے. نتیجے کے طور پر مظلوم شرمندہ اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے سے بھی گریزاں رہتا ہے. ایک سروے کے مطابق برصغیر میں ہرسال ہزاروں خواتین اور بچے بچیاں نہ صرف جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان عورتوں اور بچیوں کی بھی ہے جو کبھی عزت و وقار کے نام پر کبھی زمین و جائیداد کی خاطر گھر والوں کے ہاتھوں اور کبھی سسرال والوں کے ہاتھوں بے قصور موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں. مقام افسوس ہے کہ بھارت میں ہر سال سات ہزار سے زائد خواتین و کمسن بچیاں جنسی زیادتیوں کا شکار ہوتی ہیں اور پاکستان میں ہر سال پانچ ہزار خواتین ناموس (آنر کلنگ) کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں جسے مقامی زبان میں کاروکاری کہتے ہیں. خیال رہے کہ یہ تعداد صرف ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کا معاملہ سامنے آجاتا ہے اور پولیس میں کیس درج کیا جاتا ہے.
تاہم اب، دنیا بھر میں پہلے کی نسبت لوگوں میں جنسی زیادتی اور تشدد کے معاملات سے نمٹنے کا شعور اور ہمت دونوں اجاگر کرنے کی خاصی کوششیں کی جارہی ہیں. مختلف سماجی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں پیش پیش نظر آتی ہیں. حکومتی سطح پر بھی ایسے معاملات پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے. خاص طور پر کم عمر بچوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں پر. ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا کردار ان معاملات میں کتنی اہمیت رکھتا ہے می ٹو تحریک اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جس نے ایک ایسی برائی کو بے نقاب کیا کہ جس سے دنیا میں لاکھوں افراد متاثر ہورہے تھے.
ہمارے معاشرے میں ابھی یہ شعورگو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن اس کے اثرات یہاں بھی نظر آنے لگے ہیں. چار جنوری 2018 میں پنجاب کے شہر قصور کی جنسی ہوس کا نشانہ بناکر بیہیمانہ انداز میں قتل کردیئے جانے والی سات سالہ زینب انصاری وہ آئینہ بن گئی جس نے معاشرے کی اس بدصورتی کو عیاں کردیا. سوشل میڈیا کی ذریعے ہی اس قتل کی بازگشت پاکستان سمیت دنیا بھر میں سنائی دی گئی. ہزارہا لوگوں نے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا اور قاتل کو گرفتار کرکے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا. خود قاضی القضات پاکستان (چیف جسٹس) میاں ثاقب نثار نے از خود متوجہ ہوکر حکام کو جلد ازجلد قاتل کی گرفتاری کی ہدایت دی. اسی کا نتیجہ تھا کہ تیرہ جنوری 2018 کو زینب کے قتل کے نو دن بعد پولیس نے ڈی. این. اے ٹیسٹ کے ذریعے قاتل عمران علی کو گرفتار کیا جس نے گرفتاری کے بعد زینب سمیت آٹھ معصوم اور کم عمر بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردینے کا اقرار کیا. انسداد دہشت گردی عدالت پاکستان نے اسے پھانسی کی سزا سنائی جس پر آج سترہ اکتوبر 2018 کو سینٹرل جیل لاہور میں علی الصبح عمل کردیا گیا.

Share25TweetShareSend
Previous Post

پاکستان کی 62 فیصد آبادی خون کی کمی کا شکار، 4 میں سے 3 افراد اینیمیا بیماری میں مبتلا

Next Post

موسم کی تبدیلی سے شہری جلدی امراض میں مبتلا ہونے لگے

ڈاکٹر حنا خراسانی رضوی

ڈاکٹر حنا خراسانی رضوی

Next Post

موسم کی تبدیلی سے شہری جلدی امراض میں مبتلا ہونے لگے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

نیوز لیٹر میں شمولیت

تازہ ترین خبریں روزانہ اپنے میل باکس میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے نیوز لیٹر میں سبسکرائب کریں۔ بے فکر رہیں، ہمیں بھی سپیمنگ سے نفرت ہے!

ہمارا فیس بک پیج

اہم شعبے

آج کے کالمز آواز آپ کے خطوط افسانچہ الیکشن 2018 انٹرویو اچھی بات بک ریویو بین الاقوامی تاریخ تازہ ترین تصانیف تصاویر اور مناظر تعلیم تقریبات ثقافت حلقہ اربابِ ذوق خبریں دسترخوان دلچسپ و عجیب سالگرہ سرینگر سفرنامہ سوشل میڈیا سویڈن سیاست شخصیات شوبز صحت فیملی کارنر فیچر کالمز قسط وار سلسلے ملٹی میڈیا موسيقى ویڈیوز ٹیکنالوجی پاکستان پاکستانی ڈرامے پریس ریلیز ڈائری کاروبار کالمز کھیل کہانیاں ہیلتھ بلاگ
  • ہمارے بارے میں
  • ایڈیٹوریل بورڈ
  • آپ کے خطوط
  • اسپیشل ایڈیشن
  • ہم سے رابطہ
  • اخوت: انسانی خدمت کا بڑا ادارہ
  • اردو کمیونٹی فورم

© 2018 - 2020 اردو قاصد سویڈن
نوٹ: اردو قاصد پر شائع ہونے والے مضامین مصنف کی ذاتی رائے ہیں، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Drivs av Ilma Webbstudio

No Result
View All Result
  • Login
  • صفحہ اوّل
  • سویڈن
  • تازہ ترین
  • کالمز
  • انٹرویو
  • کھیل
  • صحت
  • شخصیات
  • حلقہ اربابِ ذوق
  • پاکستانی‌ڈرامہ
  • ڈائری
  • ملٹی میڈیا
    • تصاویر اور مناظر
    • ویڈیوز
  • ہم سے رابطہ
  • تعارف

© 2018 - 2020 اردو قاصد سویڈن
نوٹ: اردو قاصد پر شائع ہونے والے مضامین مصنف کی ذاتی رائے ہیں، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Drivs av Ilma Webbstudio

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Create New Account!

Fill the forms below to register

*By registering into our website, you agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.
All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
Notice: Undefined index: javascript in /customers/5/8/f/urduqasid.se/httpd.www/wp-content/plugins/appender/appender.php on line 237

Add New Playlist

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.