اب توعشق کی ع کو بھی ماپتا ہوں
محبت کے ترازو سے وفا ناپتا ہوں
ستم گر لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں
اسی خوف سے ہر روز بھاگتا ہوں
وہ خود توچین سے سو رہے ہیں
اور میں نیند میں بھی جاگتا ہوں
شب ہجراں میں بوئی فصل کو
غم فراق کے خنجر سے کاٹتا ہوں
اندر کا خوف ہے یا زندگی کے دکھ
ذہنی خیال کو لفظوں میں چھاپتا ہوں