پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسلہ کشمیر کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گذشتہ سات دہائیوں سے یہ خطرناک مسلہ ہماری خارجہ پالیسی کا محور چلا آرہا ہے جس کے حل نہ ہونے سے انڈیا دشمنی ہماری خارجہ پالیسی کی بنیادی اینٹ ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک چار خطرناک جنگیں لڑی جا چکی ہیں اگر ہم تفصیلات میں جائیں تو ان جنگی تباہ کاریوں کے پیچھے اصل منافرت یہی تنازعہ ہے ان جنگوں میں ہر دو ممالک کی معاشی بربادی کے ساتھ جو ہزاروں انسان مرے ہیں کتنی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوئے ہیں کیا ان کی فیملیاں ان دکھوں کو کبھی بھول سکتی ہیں۔
ان تلخیوں کے باوجود آج بھی ہمارا دعویٰ ہے کہ ”کشمیر ہماری شہہ رگ ہے“جو بہتر برسوں سے دشمن کے شکنجے میں ہے۔اگر کسی کی شہہ رگ ستر سالوں تک دشمن نے دبوچ رکھی ہو اس کے باوجود وہ پھلے پھولے یا آرام سے رہے تو یہ قانونِ فطرت کے تحت ممکن نہیں۔اس کے بعد سوچنا پڑے گا کہ یا تو یہ شہہ رگ والا دعویٰ درست نہیں ہے یا وہ دشمن اتنا رحم دل ہے کہ شہہ رگ کو مروڑ کے بیٹھا ہے مگر اسے کاٹ نہیں رہا۔۔اگر یہ کہا جائے کہ آرٹیکل 370اور35A کو تحلیل کرتے ہوئے مودی سرکار نے جس طرح کشمیر کو ہندوستان میں ضم کر لیاہے اسے شہہ رگ کا کٹنا کہیں تو شاید یہ غلط نہ ہو اس کے بعد یا تو ہم مر چکے ہیں یا پھر ہمیں اپنے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہیے کیونکہ ایک بکرے کی شہہ رگ کٹتی ہے تو وہ بھی تڑپتا یا پھڑ کتا ہے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے ابھی اسلام آباد میں آزادی کشمیر کے سیمینار سے خطاب کے دوران آبدیدہ ہو کر بلکہ روتے ہوئے جب یہ کہا کہ کشمیر ایشو پر ہماری ریاست کیا کر رہی ہے؟کیا ہماری فوج آخری کشمیری کے مرنے کا انتظار کر رہی ہے؟تو پورا ماحول سوگوار ہو گیا اس پروگرام میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی شریک تھے وزیراعظم آزاد کشمیر نے بہتے آنسووں کے ساتھ قومی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ سری نگر کی عورتیں اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں صبح سے شام تک کھولے رکھتی ہیں کہ ابھی پاکستانی فوج یہاں پہنچ رہی ہے تم لوگ اُن کی امیدوں کو مایوسیوں میں کیوں بدل رہے ہو؟ تم لوگ ڈالروں کے کن چکروں میں پڑے ہوئے ہو؟ کیا تم لوگ ڈالروں کو چباؤ گے؟ سوچنے والی بات ہے کہ یہ تلخ نوائی کسی جہادی یا بنیاد پرست مذہبی تنظیم یا لشکر طیبہ کے رہنما کی نہیں ہے ہماری طرف کے کشمیر کا وزیراعظم یہ تنبیہ کر رہا ہے کہ اے میری فوج کے سجیلے جرنیلو کیا آزادی کشمیر سے بڑھ کر بھی آپ کا کوئی ایسا بزنس ہے جس کی آمدن یا ڈالروں کو بچانے کے لیے آپ اپنی اصل ڈیوٹی کو بھول رہے ہو اگر تم لوگوں نے اس تحریک کی پکار پر لبیک نہ کہا تو پھر یہ کشمیر بھی تمھارے ساتھ نہیں رہے گا یہاں سے بھی آزادی کا نعرہ گونج اٹھے گا۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر کی تلخ نوائی اپنی جگہ مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک رستہ تو یہ ہے کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ جیسے نمائشی و تصوراتی نعروں کو ترک کرتے ہوئے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ جو کشمیر ہندوستان کے پاس ہے وہ اُن کا ہے اور جو ہمارے پاس ہے وہ ہمارا ہے۔عالمی طاقت امریکا کو بیچ میں ڈال کر اسی نقطے پر سمجھوتہ کروا لیا جائے جیو اور جینے دو کی پالیسی اپناتے ہوئے یہ گنجائش نکلوائی جائے کہ اپنے اپنے ممالک میں رہتے ہوئے کشمیری باہم ایک دوسرے کے ساتھ بغیر کسی ویزہ وغیرہ کے آجا سکیں معاشی و سماجی تعلقات اور سر گرمیاں شروع کرنے کا اہتمام کر سکیں۔پاک ہند دشمنی کو دوستی میں بدلتے ہوئے اس کے سو فیصد امکانات روشن ہیں بلکہ کشمیریوں کی برکت سے پنجابیوں کے لیے بھی اس نوع کی گنجائش نکلنا اور بڑھنا شروع ہو جائے گی یہ سوچ بالآخر سارک کے زیر اثر پورے خطے کی کنفیڈریشن بناتے ہوئے اُسے ترقی و خوشحالی کی راہوں پر لے جا سکتی ہے دو ارب سے زائد انسان امن و سلامتی کی فضا میں باہم بھائی بہنوں کی طرح رہ سکتے ہیں، یوں انسانیت کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔
دوسرا راستہ وہی ہے جس کی نشاندہی وزیراعظم آزاد کشمیر نے کی ہے۔بائیس کروڑ عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی ترقی و بہبود کو تج کر اپنے تمام وسائل جس طرح لشکر سازی و اسلحہ بندی پر لگا رکھے ہیں اتنی بڑی اور طاقتور فوج پالنے کا آخر کوئی تو مدعا ہے؟ اگر ہم نے اپنی شہہ رگ کٹنے پر بھی محض جمعہ کے روز اپنی سڑکوں کو بلاک ہی کرنا ہے تو پھر قوم یہ ضرور پوچھے گی کہ اپنے بجٹ کا اتنا بھاری حصہ تعلیم،ہیلتھ،انڈسٹری اور قومی تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر لگانے کی بجائے اتنی بھاری فوج پر خرچ کرنے کا آخر کیا جواز ہے؟کیا تاریخ یہ سوال نہیں اٹھائے گی کہ جب گھر لٹ رہا تھا عین اس وقت اتنے بھاری خرچے پر رکھے گئے چوکیدار محض اپنے ہتھیاروں کو تیل لگانے اور ادھر ادھر پھرتیاں دکھانے میں کیوں مصروف تھے؟ اپنی تنخواہیں اور مراعات حلال کرتے ہوئے وہ دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لیے کیوں اس پر ٹوٹ نہ پڑے؟؟
کیا کہا۔۔۔۔؟ دشمن بہت تگڑا ہے،اُس کا فوجی و عسکری حجم بڑا ہیوی ہے روایتی جنگ ہم جیت نہیں سکتے ایک آدھ نہیں چار مرتبہ تجربہ کر کے جنگ چھیڑ کر ہم دیکھ چکے ہر مرتبہ ہمیں بد ترین ہزیمیت اور شکست فاش سے دو چار ہونا پڑا۔65ء کی واحد جنگ جس میں اپنی فتح کا ہم پوری قوم کے سامنے ڈھنڈورا پیٹتے ہیں یہ اگرچہ شروع ہم نے کی تھی اپنے چھاتہ بردار انڈین کشمیر کے اندر اتار کر مگر 17 روز میں ہمیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا تھا اور پھر تاشقند میں پہنچ کر ہمارے اتنے بڑے خود ساختہ فیلڈ مارشل کو ذلت آمیز معاہدہ قبول کرنا پڑا تھا ہم اپنے اتنے بندے مروا کر، غریب قوم کے اتنے زیادہ معاشی وسائل جنگ کی بھٹی میں جلا کر، کشمیر کی ایک انچ زمین بھی اپنے پاس نہیں رکھ سکے تھے، یہی کچھ کارگل میں ہوا ہمارے اتنے فوجی اپنی جانیں گنوا بیٹھے جتنے ہم نے 65ء اور 71ء کی جنگوں میں مجموعی طور پر نہیں کھوئے تھے جبکہ 71ء کی جنگ میں تو اپنا آدھا پیارا پاکستان گنوا بیٹھے اور 90ہزار فوجی انڈین فوج کے سامنے ہتھیار پھینکتے ہوئے بھارتی قیدی بن گئے۔
اور پھر دیکھیے اس وقت دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں کیا یہ ہوش مندی ہو گی کہ ایک کروڑ سے بھی کم ہنستے بستے لوگوں کے شوق آزادی کا نعرہ پورا کرنے کے لیے ڈیڑھ سو کروڑ انسانوں کی زندگیاں کامل بربادی کے خطرے میں ڈال دی جائیں جن میں سے چالیس کروڑ الحمدللہ مسلمان ہیں جنہیں چھانٹ کر ایٹمی تابکاری سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ اور خواجہ غریب نوازؒ کی سر زمین کو بنجر بنانے کی سوچ غیر انسانی و حیوانی سوچ ہے جس پر لب کشائی کوئی انسان نہیں لال حویلی کا حیوان ہی کر سکتا ہے۔
باتیں یہ ساری درست ہیں تو پھر اپنی پاکستانی قوم کو کیا لائحہ عمل دیا جائے جس کے حساس ذہن کو ہم نے اپنے ستر سالہ شدین ترین زہریلے پروپیگنڈے سے مسموم کر رکھا ہے یہ تو اس قوم کی عظمت ہے جو اس زہر خوردنی کے باوجود خود کشی سے مر نہیں گئی بلکہ منافرت کے اس فلڈ میں بھی چھپ چھپ کر انڈین فلمیں دیکھتی اور اُن کے ہیروز پر جانیں چھڑکتی ہے آج اگر لتا دیوی، سری دیوی یا ایشوریا رائے میں سے کوئی لاہور کا رخ کر لے تو پورا لاہور اُن کی محبت میں امڈ پڑے۔لہٰذا قوم کے انسانی جذبات کو کچلنے کی بجائے اپنے مسائل فی الفور افہام و تفہیم سے ختم کریں، اس کے بعد ہر دو ممالک کی قیادتیں اپنے قومی وسائل کا رخ اسلحہ بندیوں کی بجائے انسانی فلاح و بہبود اور ترقی کی طرف موڑنے کی قسم کھائیں
