آدھی رات کو جب مطالعے سے فراغت ہوں تو ضرور سوچیں کہ آخر ہمارے اِس معاشرے میں جاری تیز رفتاری کا کوئی خاتمہ بھی ہے؟ اب آپ کہیں یہ مت کہیئے گا کہ موت ہی تمت بالخیر ہے۔ موت تو صرف ایک فرد کے اِس دُنیا سے ناطہ توڑنے کا نام ہے لیکن مُعاشرتی سانسیں تو اُسی تیز رفتاری کے ساتھ چل رہی ہوتی ہیں جس تیز رفتاری میں اُس فرد نے اپنی جان دےدی۔ سوچتے سوچتے تھک جائیں گے مگر جواب کی اُمید شاید پیدا نہ ہو کیونکہ جس وقت (آدھی رات کو) آپ سوچ رہے ہوں گے اُسی وقت دُنیا کے متعدد کونوں میں معاشرتی تیز رفتاری کے کئی کئی مرحلے مکمل ہورہے ہوں گے۔ بلکہ آپ کی سوچ سے بھی زیادہ اِس تیز رفتاری کا چال و چلن جاری و ساری ہوگا۔ لہٰذا ہر سکینڈ وجود میں آنے والی ترقی کے کسی خاتمے کی تمنا کیے بغیر ہم اِس موضوع کو طول دیتے ہیں اور بحث کرتے ہیں کہ معاشرتی نُمو کا تغیر و تبدُل اس قدر اِنتہا و اختتام کو پار کرے گا کہ جہاں انسانی عقل کو معراج حاصل ہوگا۔ (ہوسکتا ہے کہ یہ ہماری پیشنگوئی بھی ہو)
درج بالا پیراگراف میں لفظ “مطالعے” کے ذریعے ایک علمی اور تحقیقی پہلو کی فضلیت بیان کی گئی ہے اور اذہان کو اس نیک اور جاویداں خصلت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ آدھی رات کو کیا جانے والا مطالعہ زندگی بھر کا سرمایہ اور آئندہ زندگی میں کامیابی کی بھرپور ضمانت ہے۔ وگرنہ آدھی رات کو آپ کوئی فلم بھی دیکھ سکتے ہیں، گپ شپ بھی کرسکتے ہیں (اگر دوستوں کی محفل ہو تو)، بغیر کچھ کیے بھی آدھی رات کا منظر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ تمام حرکات و سکنات وقتی طور پر تفریح طبع کا سامان ضرور فراہم کرسکتیں ہیں لیکن معاشرتی اِرتقاء کےلئے آپ کی ضروری شراکت کو ظاہر نہیں کرسکتیں۔ اِس تیز رفتار معاشرے میں آپ کا وجود آپ کے علمی و سماجیانہ عمل کی خدمات کے ذریعے ہی برقرار رہ سکتا ہے۔ مرنے کے بعد بھی زندہ رہنے کےلئے اپنی شخصیت کے اُس پہلو کو نکال باہر کرنا ہوگا جو انسانی اور علمی اقدار کےلئے خود کو فنا تو کرسکتا ہے مگر اعلیٰ اُصول و نظریات سے سر مُو انحراف نہیں کرسکتا۔
مُعاشرتی بود و باش کا ترتیبی پہلو ہماری اِجتماعی زندگی سے اِس قدر جُڑا ہوا ہے کہ لاکھ چاہیں بھی تو اِس سے مَفر ممکن نہیں۔ کیا ہی امیر کیا ہی غریب، ہر اِک کو زندگی گزارنی ہے۔ البتہ زندگی گزارنے میں تفریق ضرور ہے کہ امیر شاہانہ طرزِ زندگی کا عادی ہے اور غریب فقیرانہ طرزِ عمل کا قیدی۔ شاہانہ اور فقیرانہ پہلوؤں کا حتمی نتیجہ بالآخر وہی نکلتا ہے کہ جس کو ہم مُعاشرہ کہتے ہیں۔ اور یقین مانیں کہ مُعاشرہ سلسلہ وار بڑھتا جارہا ہے، اِس کو امیری اور غریبی دونوں قسم کی ہیئت کو کُچلتے ہوئے ایک ایسے ہدف تک پہنچنا ہے جہاں انسانیت اپنے حقیقی مقام سے ضم ہوجائے گی۔ اور میں اُس مقام کا خاکہ اِس تحریر کے ذریعے کھینچنا چاہوں گا۔
جدید مُعاشرے کی ایک عجیب خاصیت ہے کہ یہاں سیکھنے کا عمل بڑا تیز ہے۔ ماں کی گود بھی اب سَستانے اور سیکھنے کے عمل کےلئے تنگ پڑ رہی ہے۔ چونکہ ہر اِک کو تیز بھاگنا ہے اور سُکون نہ کرنے کا رواج عام ہے تو پھر مُسابقت کا پیدا ہونا لازمی اَمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے معاشرے نے سب کچھ تو سیکھ لیا لیکن کہیں لمحہ بھر کےلئے ٹھہرنے کا قرینہ نہیں سیکھا۔ ابھی منہ سے دودھ کی بوندیں بھی خُشک نہیں ہوئی ہیں کہ بچہ بڑھا، قریب ہوا یہاں تک کہ چھیننے، جھپٹنے کی سکت بھی پیدا ہوگئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بچے نے کیا پکڑا ہوگا؟ زیادہ گہرائی میں اور غور و فکر کی طرف مت جائیئے۔ بچے نے وہی چیز پکڑی ہے جو اُس وقت اس کی ماں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ چیز موبائل ہوسکتا ہے، ویڈیو گیم ٹائپ کی مشین ہوسکتی ہے، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ یا دیگر اقسام کی ٹیکنالوجی ہوسکتی ہے کہ جس نے انسانی زندگی کے آرام و سُکون کو گھول گھول کر پی لیا ہے۔ اور تمام تر ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر لیا ہے۔ یہ تیز رفتاری کہ جس کا ہدف انسانیت کو جلدی جلدی دوڑانا ہے، ایک ایسے موڑ تک آپہنچی ہے کہ:
🔹جہاں بچے وقت سے پہلے جوان ہوچُکے ہیں۔
🔹ادھیڑ عمر ضرورت سے زیادہ بے باک نظر آتے ہیں۔
🔹بوڑھے اوقات سے زیادہ رومان پرور واقع ہوتے ہیں۔
عجیب سماں ہے کہ بچہ سب کچھ وقت سے پہلے جان گیا۔ بلوغت کے حامل افراد ایک مرحلے پر جہاں بھرپور سنجیدگی کا مظاہرہ کرناہے، پر رُکنا چاہیئے تھا وہاں نہیں رُک رہے بلکہ اب بھی غیر سنجیدگی اور لا اُبالی کا اظہار دھڑلے سے کرنا اُن کا شعار بن گیا ہے۔ بوڑھے افراد کی جوانی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسے میں آپ معاشرتی اِرتقاء سے آس لگائیں بیٹھیں کہ وہ آہستہ چلے تو یہ انصاف والی اُمید نہیں ہوگی۔ جب سب ہی نے کچھ نیا کرنے کی ٹھان لی ہے تو تیز رفتاری کو بھی بے لگام گھوڑے کی طرح بھاگنے دو۔ کیا پتہ کہیں سے خزانہ عرب و عجم ہاتھ لگ جائے۔
سوال یہ ہے کہ جدید معاشرہ کی تیز رفتاری کا تمام تر دارو مدار ٹیکنالوجی پر ہے؟ اگر آپ “نہیں” کہیں گے تو آپ نے قبل از وقت جوان ہوتے بچے کو نظر انداز کیا، پھسلتی ہوئی بوڑھی جوانی کی تضحیک کی اور ادھیڑ عمر کے رومانس کو لات مار دی۔ جی ہاں ٹیکنالوجی کی نپی تُلی ایجادات نے میرے، آپ کے اور ہم سب کے ہوش ٹھکانے لگادیئے ہیں۔ ہم حیرت زدہ ہیں کہ اب تک یہ یہ ہوا ہے اور نہ جانے آگے کیا کیا ہوگا۔ یہ دعویٰ ایسے ہی نہیں کیا جارہا۔ آپ ہالی ووڈ، بالی ووڈ، لالی ووڈ اور تالی ووڈ کی فلمیں دیکھیں آپ کو وضاحت کے ساتھ ٹیکنالوجی کے عمومی کردار اور مستقبلِ قریب میں اِس کی اجمالی پرچھائیاں صاف نظر آئیں گی۔ آپ ذرا ہالی ووڈ کی فلم ” سن آف پریشیاء” دیکھیں آپ کو پتہ چلے گا کہ ایک شیشے کی بوتل میں وقت کی نبض کیسے قید کی گئی ہے۔ وہ شیشے کی بوتل آپ کو بتاتی ہے کہ آئندہ آنے والے وقتوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے اور اس کے مطابق کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔ اِسی طرح تالی ووڈ (تامل فلم) فلم میں ایک گھڑی کی ڈرامائی ایجاد اور بعدازاں اُس گھڑی کے ذریعے ماضی کو واپس پلٹانے کا عمل اور مستقبل میں جو کچھ ہوگا اُس سے آشنا ہونے کی خبر بڑے زبردست طریقے سے فلمائی گئی ہے۔ ان فلموں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ واقعی میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی اس تیز رفتاری کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ بالفعل ایسا نہیں ہے تو بالقوہ ایسا ہونا ممکن ہوسکتا ہے۔
نوٹ: یہ ایک تجزیاتی و مُشاہداتی تحریر ہے۔ اس کو حقیقت کے عینِ ممکن نہ سمجھا جائے۔ (شُکریہ)
47